ماجد مجید
اگرچہ کشمیر میں اردو کی عمر ایک ڈیڑھ سو سال سے زائد نہیں ہے، پھر بھی اس قلیل عرصے میں اردو زبان نے یہاں اتنی ترقی کی ہے کہ اس وقت ریاست کی ہر دل عزیز زبان ہے اور یہاں کے لوگوں نے اسے ایک تہذیبی زبان کی حیثیت سے قبول کیا ہے۔اردو یہاں پچھلی صدی کے آخری حصے میں پہنچی جب پورے ہندوستان میں یہ ایک رابطے کی زبان کی حیثیت سے اُبھر چکی تھی اور وہاں کے شعراء و ادباء اسے اپنی تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا چکے تھے۔یہی وہ زمانہ ہے جب ریاست میں ڈوگرہ خاندان کی حکومت اپنے شباب پر تھی، ان کا لاہور اور دلی دربارسے گہرا تعلق تھا۔ان علاقوں سے کشمیریوں کے تجارتی تعلقات بہت تیزی سے بڑھنے لگے، ڈوگرہ حکومت اس تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہتی تھی تاکہ لاہور اور دلی کے ساتھ تعلقات زیادہ خوشگوار ہوں، اس طرح ریاست کے لوگوں کا ان علاقوں میں آنا جانا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔
کشمیر ی چونکہ پہلےسے فارسی زبان اور اس کے رسم خط سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور فارسی کے بہت سے الفاظ،محاورے اور ضرب الامثال کشمیری بول چال کا لازمی جز بن گئے تھے۔اس لئے کشمیریوں نے اس عوامی زبان کو جس پر صوتی صرفی سطح پر فارسی عربی کے گہرے اثرات تھے، اپنے مزاج کے مطابق پایا اور بہت جلد اس میں بول چال اور لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
جموں کا لاہور اور روالپنڈی سے گہرا رابطہ تھا، اس لئے ان کی زبان ڈوگری پر بھی اردو کے گہرے اثرات پڑے۔ڈوگری رسم خط فارسی رسم خط کی مرہون منت ہے جس طرح پنجابی اور سندھی زبان کا معاملہ ہے۔اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تجارت ہی وہ پیشہ ہے، جس سے دو مختلف قومیں ایک دوسرے کے بہت قریب آتی ہیں اور تہذیبی اعتبار سے ایک دوسرے کو متاثر کرتی ہیں۔
انگریزی زبان اس کی عمدہ مثال ہے، اس سلسلے میں زبان کے متحرک کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔تجارتی تعلقات سے زبان،انداز گفتگو اور لب و لہجے میں جس قدر تبدیلی ہوتی ہے انسانی تہذیب کے کسی اور پہلو میں نہیں ہوتی ۔اگر ہم کشمیری زبان کا گہرا مطالعہ کریں تو صاف ظاہر ہوگا کہ شمالی ہندوستان کے اشیاء تجارت کے نام کشمیری کے لازمی جز بن گئے ہیں، مثلاً مصالحوں اور کپڑوں کے نام شمالی ہندوستان کی بہت سی زبانوں اور خاص کر اردو کے الفاظ کسی نہ کسی صورت میںآج بھی کشمیری زبان کے صرفی سطح پر ملتے ہیں۔یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بے محل نہ ہوگا کہ ریاست کے پہاڑی علاقوں کی بولیوں پر بھی اردو زبان کے اثرات صرفی اور نحوی سطح سے لےکر صوتی سطح تک رچ بس گئے ہیں ۔ڈوگرہ مہاراجوں ریاست کی تینوں اکائیوں کو ایک دوسرے سے قریب رکھنے کے لئے اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر اختیار کیا اور با ضابطہ طور پر اس صدی کی پہلی دہائی میں آردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔
اسی زمانے میں جموں سے (بدیا بلاس )نامی اردو ہندی مشترکہ اخبار کا اجرا ہوا ۔اس طرح آہستہ آہستہ اس ریاست میں اردو کی مقبولیت بڑھتی گئی، یہاں کے باشندے اس زبان کے بہت قریب آنے لگے۔ دہلی لاہور اور امرتسر سے اردو اخبارات کی آمد شروع ہوئی اور گھر گھر بکنے لگے۔مقامی شعراء کی تخلیقات میں اردو کے اثرات نمایاں ہونے لگے ،دیکھتے دیکھتے کشمیر میں بھی یہ زبان برگ و بار لانے لگی اور بیسویں صدی کے چوتھے دہئے تک اردو ادیبوں اور شاعروں کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہوگیا، آزادی کے بعد اردو فن کاروں کی نئی نسل آئی، جنہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر اور اس کی دوسری اصناف کی طرف بھی توجہ دی۔
اردو زبان اور اس کے ارتقاء کے سلسلے میں کشمیر میں اردو صحافت کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،اگر یہ کہا جائے کشمیر میں اردو کی ترویج و ارتقاء یہاں کی اخباروں کی مرہون منت ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔اس وقت ریاست کے
تقریباً 90فی صد اخبارات اردو میں شائع ہوتے ہیں۔ یہاں کی نئی پود کو اردو زبان سے روشناس کرانے میں ان کا نمایاں رول ہے۔اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں یہاں کی کلچرل اکادمی،سٹیٹ انفارمیشن اور ریڈیو کشمیر بھی نممایاں کام انجام دے رہے ہیں۔ شعبہ اردوکشمیر یونیورسٹی ،اقبال انسٹیٹیوٹ اور شعبہ اردو جموں یونیورسٹی کی وجہ سےاردو زبان کی قدر و قیمت کا احساس اور جاگا ہے اور اس زبان کی تہذیبی حیثیت کو قبول کرتے ہوئےریاست کے فن کار اور محقق نمایاں کام کر رہے ہیں۔ یہاں کی ادبی مجالس اور ادبی انجمنوں کی وجہ سے اس زبان نےنمایاں حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اردو اس وقت بھی ریاست کی تینوں وحدتوں کے لئے رابطے کی زبان بنی ہوئی ہے۔(ہندی ہندوستانی اور اردو یہ تینوں شبد ایک ہی زبان کو ظاہر کرتے ہیں، جسے اتر بھارت میں ہندو مسلمان دونوں بولتے ہیں اور جو دیو ناگری یا فارسی لکھاوٹ میں لکھی جاتی ہے ۔مہاتما گاندھی( ہریجن سیوک 3 جولائی 1937 عیسوی)
( کشمیر یونیورسٹی سری نگر)
[email protected]