سرینگر//؍حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے جموں کشمیر جیسی چھوٹی ریاست میں قبرستان جیسی خاموشی کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے امن کا نام بخشنے کو دیوانے کی بڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر نریندر مودی کی تاویل صحیح ہے تو پھر مغربی بنگال کو ایک شورش زدہ ریاست ہونے کی بناء پر فوج کے حوالے کرنے میں کیا پس وپیش ہے اور یہاں AFSPA، POTA، PSAاور ULAجیسے کالے قوانین کا نفاذ عمل میں کیوں نہیں لایا جاتا ہے؟ حریت چیرمین نے کہا کہ انہیں مغربی بنگال میں حالات سازگار ہونے کی وکالت کرنے کا شوق نہیں ہے، لیکن ریاست جموں کشمیر میں خوف وہراس کے اندھیاروں اور جنگی طرز کے حالات کو امن کا نام دینے پر بھارتی وزیر اعظم کے سوچ اور اپروچ پر تعجب ہورہا ہے۔ حریت رہنما نے ریاست جموں کشمیر میں نامساعد حالات کی شدّت کا احساس دلانے کے لیے بھارت کی ارون دھتی رائے، گوتم نولکھا اور تپن پوس جیسے غیر جانبدار اور باضمیر لوگوں کے علاوہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ریاست کا دورہ کرنے پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا مشاہدہ کرکے بیرونی دُنیا کو یہاں کی جہنم زار حالت سے باور کیا جاسکتا ہے۔ گیلانی نے ریاست جموں کشمیر کے طلباء کو جنگبندی لائن کے اُس پار آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے پر پابندی عائد کرنے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حریت کانفرنس متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان مشروط آوا جاہی یا آلو پیاز کی نمائشی تجارت کے حق میں نہیں ہے، جب تک نہ ریاست کے لوگوں کو حقِ خودارادیت واگزار کرتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقعہ فراہم نہ کیا جائے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے لیے حدبندیوں کو رُکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ آزادی پسند راہنما نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے اندر پاسپورٹ حاصل کرنا کسی بھی فرد کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بنادیا گیا ہے جس کی وجہ سے بیشتر ریاستی باشندے بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت، تعلیم، سیاحت، علاج یہاں تک کہ حج جیسے مذہبی فرائض انجام دینے سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ حریت راہنما نے حصول تعلیم پر پابندی عائد کرنے کو اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ریاستی عوام کے جملہ حقوق انسانی کو غارت کرتے ہوئے اس کو ایک جہنم زار قید خانے میں تبدیل کردیا ہے