تقریباً 70 برسوں تک جموں و کشمیر ایک آئینی بے ضابطگی کے سائے میں رہا تھا، جو دراصل تاریخ کی ایک غلطی تھی اور ساتھ ہی ساتھ تمام انسانوں کے لئے مساوی حقوق کے اصول کے لحاظ سے بھی ایک غلطی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ خدا کی مرضی یہی رہی ہو کہ جناب نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے جب باگ ڈور سنبھالیں تب جموں و کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 اور 35 (اے) کی بیڑیوں سے آزاد کرائیں۔
تبدیلی رونما ہونے اور نئے انتظامی و آئینی انتظامات کے بعد جموں و کشمیر نہ صرف یہ کہ ترقی کے ایک تیز رفتار سفر پر گامزن ہو گیا ہے بلکہ اس نے ان ذہنی بندشوں سے بھی نجات حاصل کر لی ہے جس نے عوام الناس کو بقیہ بھارت کے مقابلے میں خود کو قدرے مختلف محسوس کرنے کے لئے مجبور کر رکھا تھاا ور اسی طریقے سے بقیہ ہندوستان بھی جموں و کشمیر کو ایک علیحدہ نظریہ سے دیکھتا تھا۔
تمام سطحوں پر ارتباط کے عملی جامہ پہننے کے بعد جموں وکشمیر کے عوام آج مودی کے نیو انڈیا میں ایک لازمی عنصر بننے کے اپنے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے امکانات کو لے کر کافی پرجوش ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ وہ اس سے استفادہ بھی حاصل کریں گے۔
یہ تخیلاتی جموں و کشمیر ایسا ہے جس نے نہ صرف یہ کہ ماضی کی غیر صحت بخش وراثت سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے بلکہ بقیہ ہندوستان کی طرز پر ہی اپنی خواہشوں کو پروان چڑھانے کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔ آج جموں وکشمیر ترقی کے ایک نئے سفر پر گامزن ہو چکا ہے۔ 170 ایسے مرکزی قوانین جو اس سے قبل نافذ العمل نہیں تھے، انہیں اب نافذ العمل بنا دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ تمام تر مرکزی قوانین جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں نافذ العمل ہوگئے ہیں۔
متعدد قوانین مثلاً اطفال کی شادی سے متعلق ایکٹ، تعلیم حاصل کرنے سے متعلق ایکٹ، آرٹی آئی اور آراضی اصلاحات بھی اب نافذ العمل ہوچکے ہیں۔ والمیکی، دلت اور گورکھا برادریاں یہاں دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں، اب انہیں بھی دیگر باشندگان کے مساوی حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ اب مقامی باشندگان اور دیگر ریاستوں کے باشندگان یکساں حقوق کے حامل ہیں۔ 334 ریاستی قوانین میں سے 164 قوانین منسوخ کر دیے گئے ہیں اور 167 قوانین کو بھارتی آئین کے مطابق اختیار کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سرحد کے نزدیک سکونت پذیر افراد کے لئے روزگار اور تعلیمی اداروں میں 3 فیصد کے بقدر کے ریزرویشن کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔
15ویں مالی کمیشن کی سفارشات کے مطابق جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 2020۔21 کے دوران بالترتیب 30757 کروڑ روپئے اور 5959 کروڑ روپئے کی گرانٹ منظور کی گئی ہے۔
گذشتہ برس، اپنی نوعیت کے اولین گرام پنچایت انتخابات اور ضلع پنچایت انتخابات کا کامیابی سے انعقاد کیا گیا۔ متعدد برسوں کے بعد، پنچایت انتخابات سال 2018 میں منعقد ہوئے اور 2019 کے بلاک ترقیات کونسل کے انتخابات میں 74.1 فیصد کا ٹرن آو?ٹ مشاہدہ کیا گیا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ منعقد ہوئے تھے اور ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 98.3 فیصد کے بقدر رہا، اس کے ساتھ ہی ساتھ حال ہی میں منعقدہ ضلعی سطح کے انتخابات میں بھی ریکارڈ شرکت دیکھی گئی۔
آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ اسکیم کے تحت جموں و کشمیر میں 51.7 لاکھ استفادہ کنندگان کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ اس اسکیم کے تحت، جموں وکشمیر کے ہسپتالوں میں 2.24 لاکھ معالجات کی اجازت دی گئی ہے جس کے لیے 223 کروڑ روپئے کے بقدر کی رقم منظور کی گئی ہے۔ پی ایم کسان اسکیم کے تحت 12.03 لاکھ استفادہ کنندگان کو اب تک شامل کیا جا چکا ہے۔
رہائش سے متعلق قانون کا اطلاق عمل میں آچکا ہے اور 1990 میں وادیٔ کشمیر سے بے گھر ہوئے کشمیری پنڈتوں کو ازسر نو آباد کرنے کا راستہ ہموار ہو چکا ہے۔ 6000 روزگار اور 6000 ٹرانزٹ رہائش گاہوں کی فراہمی کے لئے کام پیش رفت کے مراحل میں ہے۔
سیبوں کی کاشت کے لئے منڈی دخل اندازی کی ایک اسکیم نافذ کی گئی ہے، اس اسکیم کے تحت مرکزی حصولیابی ایجنسی کے لئے ڈی بی ٹی ادائیگیوں اور نقل و حمل کے انتظام نے سیبوں کی قیمتوں کو استحکام بخشا ہے۔
کشمیر کی زعفران کو جی آئی ٹیگ حاصل ہوا ہے، اب کشمیر کی زعفران شمال مشرقی ریاستوں تک بھی پہنچ رہی ہے۔ پلوامہ کا موضع اوکھو ’پنسل والا گاؤں‘ کا ٹیگ حاصل کرنے کے لئے مستعد ہے۔
سری نگر کے عرصے سے متوقع رام باغ فلائی اووَر کو کھول دیا گیا۔ آئی آئی ٹی جموں کو اس کا اپنا کیمپس حاصل ہو گیا ہے۔ اور اے آئی آئی ایم ایس جموں کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ اٹل ٹنل کے لئے انتظار اس وقت ختم ہوا جب وزیر اعظم نے اسے ملک کے نام وقف کیا۔ جموں سیمی رنگ روڈ اور 8.45 کلو میٹر طویل نیو بنیہال ٹنل کو اس سال کھول دیا جائے گا۔
دہشت کے واقعات قابل ذکر طور پر تخفیف سے ہمکنار ہوئے ہیں اور اب وادی میں امن اور سلامتی کا ایک نیا ماحول ہموار ہو رہا ہے۔ سیاحت تیزرفتار افزوں رجحان کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
شاہپور۔ کنڈی باندھ پروجیکٹ پر کام، جو 40 برسوں سے تعطل کا شکار تھا، دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ رتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا کام بھی ازسر نو شروع کیا جا رہا ہے۔
پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب حکومت ہند کی صنعتی فروغ کی اسکیم کے تحت جموں و کشمیر میں بلاک کی سطح پر صنعتی ترقیات کا کام عمل میں لایا جائے گا۔ نئی مرکزی اسکیم کے تحت، آئندہ 15 برسوں کے دوران فراہم کی جانے والی 28400 کروڑ روپئے کے بقدر کی ترغیبات ریاست میں ترقی کے نئے دروازے کھولیں گی۔
بنیادی شعبے میں روزگار کی بہم رسانی کے علاوہ، دیگر 4.5 لاکھ براہِ راست اور بالواسطہ روزگار زراعت، باغبانی ، ریشم کے کیڑوں کی پرورش، ماہی پروری، مویشی پالن اور دودھ کی صنعت کے شعبوں میں فراہم ہونے کی توقع ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں آج جموں و کشمیر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج کا تخیلاتی جموں و کشمیر کل کے لئے ایک نمونہ عمل بننے کے لئے کلی طور پر مستعد ہے۔
) صاحب ِمضمون وزیر مملکت (آزادانہ چارج) سائنس اور تکنالوجی ۔وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ارضیاتی سائنسز۔وزیر مملکت دفتر ِ وزیر اعظم ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلائی امورہیں)
�������