جموں شہر میں ہر روز صبح 4گھنٹے تک ’ کورونا‘ نہیں ہوتا؟

 سرینگر //جموں میں کوویڈ سے متعلق حکومتی عملیاتی طریقہ کار پرصبح 10بجے کے بعد عملدر آمد شروع ہوتا ہے۔صبح 6بجے سے 10بجے تک جموں شہر میں کورونا جیسے غائب ہوجاتا ہے کیونکہ 4گھنٹے تک جموں شہر کے ہر حصے میں سبھی کاروباری و تجارتی مراکز، ہوٹل، ریستوران کھلے رہتے ہیں نیز ہر طرح کی آمد و رفت، ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ آٹو رکھشا اور قلیل تعداد میں چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔4گھنٹے کے وقفے کے دوران جموں شہر کی ہر ایک سڑک ٹریفک سے بھری پڑی رہتی ہے، سبھی بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ امڈ آتی ہے، دکانوں پر لوگوں کا بھاری رش رہتا ہے اور لوگ ہر طرح کی خریداری کرتے ہیں۔اسکے مقابلے میں وادی میں سخت ترین بندشیں لاگو کرنے سے سرینگر شہر اور وادی کے دیگر قصبوں میں کورونا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے اگر چہ دہی علاقوں میں کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔کورونا کرفیو مکمل طور پر لاگو نہ کرنے کے نتیجے میں جموں صوبے میںصرف ڈیڑھ ماہ کے عرصے کے دوران 43ہزار 72افراد ووائرس سے متاثر ہوئے جبکہ 756افراداپنی جان گنوا چکے ہیں ۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دو روز قبل جموں کے اسپتالوں میں کام کررہے سینئر  فیکلٹی ممبران سے کہا ہے کہ وہ جموں میں اموات کی شرح میں اضافہ کی وجوہات کا پتہ لگانے کے علاوہ ہر ایک اسپتال میں ڈیوٹیوں کے دوران کوویڈ مریضوں کی دن میں دو بار جانچ کرائیں اور وارڈوں کا لازمی طور پر گشت لگائیں تاکہ کوویڈ مریضوں کی نازک حالت کا بھر وقت اداراک کیا جاسکے۔جموں میں پچھلے دو ہفتوں کے دوران اموات کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور روزانہ کے کیسوں کی شرح تقریباً وادی کے برابر یا اس سے زیادہ ہورہی ہے۔ جموں میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پنجاب اور دیگر ریاستوں سے آنے والے لوگوں کو بغیر ٹیسٹنگ کے داخل ہونے اورروزانہ صبح لاکھ ڈائون میں دی جانے والے نرمی کے دوران قوائد و ضوابط پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جموں میں وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد کشمیر کے مقابلے میں کم ہے۔ گذشتہ سال 9مارچ 2020سے لیکر31مارچ 2021تک جموں صوبے میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران  53ہزار41افراد متاثر جبکہ 737افراد فوت ہوگئے تھے لیکن کوروناوائرس کی دوسری لہر کے دوران ابتدائی ڈیڑھ ماہ کے عرصہ کے دوران صوبے میں43ہزار افراد متاثر جبکہ 756افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔جانی پور میں رہائش پذیر ڈاکٹر سنیل اروڑہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ صبح 6بجے سے 10بجے تک لاک ڈائون میں ملنے والی نرمی کے دوران لوگ نہ تو سماجی دوری کاخیال کرتے ہیں اور نہ ہی دیگر قوائد و ضوابط پر عمل کرتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ لوگ صبح سویرے بازاروں کی جانب رخ کرتے ہیں جہاں کسی بھی ایس او پی پر عمل نہیں ہورہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ جموں میں کورونا مریضوں کی صورتحال تشویشناک ہے جو اب وادی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اسکی وجہ صبح کے وقت 4گھنٹے کی ڈھیل ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے جموں صوبے میں وبائی بیماریوں پر نظر گزر رکھنے والے نوڈل آفیسر اور انچارچ میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر اے ڈی ایس منہاس نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’پٹھانکوٹ اور دیگر مقامات پر ٹیسٹنگ سہولیات دستیاب رکھی گئی ہیں اور وہاں سے آنے والے تمام لوگوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ممکن کے چند لوگ تعینات عملہ کو چکمہ دیکر فرار ہوتے ہوں‘‘۔ڈاکٹر منہاس نے کہا ’’ جموں صوبے میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ پھر بھی کشمیر کے مقابلے میں کافی کم ہے‘‘۔جی ایم سی جموں میں بڑی تعداد میں ہونے والی اموات پر ڈاکٹر منہاس نے کہا ’’ جی ایم سی جموں،صوبے کا واحد ٹریشری کیئر اسپتال ہے اسلئے یہاں سخت علیل مریضوں کا داخلہ ہوتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہم گھر میں فوت ہونے والے افراد کو بھی اسپتال کے لاش گھر میں رکھتے ہیں اور ان کی آخری رسومات قوائد و ضوابط کے تحت انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر منہاس نے کہا ’’ محکمہ صحت نے قوائد و ضوابط جاری کئے ہیں لیکن ان قوائد و ضوابط پر عمل آوری کرانا صوبائی انتظامیہ کا کام ہے اور اس پر صرف ڈیویژنل انتظامیہ ہی بات کرسکتی ہے‘‘۔کشمیر عظمیٰ جموں صوبے نے کورونا مخالف قوائد و ضوابط پر عمل نہ ہونے کے بارے میں ڈیویژنل کمشنر (جموں) راگھیو لنگر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم بار بار کوشش کرنے پر بھی ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔