رشید پروینؔ ،سوپور
دیر ہی سہی لیکن الیکشن کمشنر نے ۱۶ ؍اگست کو جموں وکشمیر کے سیاسی عاشقوں کو محبوب کے آنے کی خبر دے کر شاد کیا اور ان کے اُجڑے دیاروں میں پھر سے نئے چراغ روشن بھی کئے ،تین مر حلوں میں انتخابات کااعلان ہوا۔ ۹۰ رکنی جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے ۱۸ ستمبرکو پہلے مرحلے میں ۲۴ نشستوں کے لئے ، دوسرے مر حلے میں ۲۵ ستمبر کو ۲۶اور تیسرے اور آخری مرحلے میں یکم اکتوبرکو ۴۰ نشستوں کے لئے ووٹنگ ہوگی اور ۸؍ اکتوبر کو نتائج سامنے آئیں گے۔آپ کو شاید یاد ہو کہ سپریم کورٹ نے ۱۱ ؍دسمبر ۲۰۲۳ ءکو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ۳۷۰ کی منسوخی آئینی ہے لیکن جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ۳۰ ؍ستمبر ۲۰۲۴ ءسے پہلے پہلے کرائیں جائیں ، سو اِن احکامات پر عمل ہو رہا ہے ۔جموں و کشمیر سپیشل سٹیٹس ۳۷۰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الحاق جموں و کشمیر ، مہاراجہ کی دستاویز اور اس کے ہونے نہ ہونے پر اب کسی بھی قسم کی بحث اور خیالات کا اظہار کوئی معنی نہیں رکھتا ،لیکن اس دفعہ کی پر چھائیاں کہیں نہ کہیں اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی رہیں گی اور شاید قصے کہانیوں کا روپ دھار لیں گی۔
نئی حد بندی جو ۲۰ ؍مئی ۲۰۲۲ ءسے نافذالعمل ہے، کی رو سے جموں کے لئے مزید ۶ نشستوں کا اضافہ اور کشمیر کے لئے ایک نشست کا اضافہ کیا گیا تھا ، کل نشستوں کی تعداد ۹۰ نہیں بلکہ ۱۱۴ ہے جن میں ۲۴ نشستیں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لئے مختص ہیں۔ ۹۰ نشستوں میں سے ۴۳ جموں اور باقی ۴۷ نشستیں کشمیر کے لئے وقف ہیں۔ جموں و کشمیر میں پچھلے انتخابات 2014 میں ہوئے تھے ،جس میں صرف ۸۷ نشستیں تھیں ۔ انتخابات میں پی ڈی پی نے ۲۸ ، بی جے پی نے ۲۵ اور این سی کو صرف ۱۵ سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا ۔ کانگریس نے ۱۲ نشستیں حاصل کی تھیں ، بی جے پی اور مفتی سعید کی پیپلزڈیمو کریٹک پارٹی نے اتحادی سر کار بنائی تھی،جس کی سر براہی مر حوم مفتی محمد سعید کررہے تھے ، لیکن ۷ جنوری ۲۰۱۶ ءمفتی صاحب کی وفات پر یہ پد مختصر سی مدت کے لئے خالی رہا اور آخر محبوبہ مفتی نے بحیثیت چیف منسٹر کے حلف اٹھایا ، لیکن وہ اپنی مدت پوری نہیں کر سکی کیونکہ بی جے پی نے جون ۲۰۱۸ ءکو اپنا سپورٹ محبوبہ سرکار سے واپس لے کر حکومت گرائی تھی اور اس کے ساتھ ہی تب کے گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے ایک حکنامے کے تحت جموں و کشمیر میں گور نر راج کا نفاظ عمل میں لایا تھا ۔ اس کے بعد ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ کے روز ہی ریاست جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریوں میں نہ صرف تقسیم کیا گیا تھا بلکہ ریاست کی مخصوص دفعات ۳۷۰ اور ۳۵اے وغیرہ کو بھی ماضی کے دھندلکوں کی نذر کیا گیا تھا ،آئین ہند میں ان دفعات کے تحت جموں و کشمیر کو ایک اسپیشل سٹیٹس حاصل تھا ،جس سے اس روز ختم کیا گیا تھا۔ ۳۷۰ اور ۳۵ اے یا یوں کہیں گے کہ جموں و کشمیر کو حصوں میں بانٹنے کے دوران ہی اس بات کے تذکرے ہوئے تھے کہ کشمیر کو سٹیٹ ہڈ’’مناسب وقت ‘‘پر واپس دی جائے گی ۔
بہر حال جموں و کشمیر کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے لئے ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھیں ،اب تما م ایسی سیاسی پارٹیاں جن میں روایتی اور پرانی پارٹیوں کے علاوہ کچھ نئی پارٹیاں بھی اپنی قسمت آزمائی کے لئے پر تول ر ہی ہیں ، ان میں سید الطاف بخاری کی ’’اپنی پارٹی‘‘اور جی این آزاد کی ’’ڈیموکریٹک پراگریسیوآزاد پارٹی ‘‘بھی ہے ، ۔یہ ساری پرانی اور نئی پارٹیاں انتخابات کے لئے اپنا اپنا نریٹو فروخت کرنے کی کوششیں بہت پہلے ہی سے شروع کرچکی ہیں۔ یوں تو پہلے سبھی پارٹیوں کےبیانئے ۳۷۰ اور سپیشل سٹیٹس جو جموں و کشمیر کو حاصل تھا ، کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے تھے ،اور سبھی پارٹیاں ان کی حفاطت اور نگہبانی کے لمبے لمبے دعوے کیا کرتی تھیں،لیکن اب ان تلوں میں کوئی تیل نہیں بچا ہے ،اس لئے سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے بیانئے مارکیٹ میں لارہے ہیں ۔تمام سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کی جھلک پاکر زبردست خوشی کا اظہار کیا ہے۔سی پی ایم لیڈر یوسف تاریگامی نے کہا ’’کہ انتخابی اعلانئے نے ووٹرز میں جمہوری حوالے سے اعتماد پیدا کیا ہے ‘‘اگر چہ یہ صاحب صرف اپنی ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔کانگریس سیکریٹر ی نر یندر گپتانے کہا کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں ، یہ بھی کہا کہ عوام الیکشن کا انتظار کر رہے تھے ، کچھ عرصہ پہلے عمر عبداللہ نے ایک قومی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسمبلی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ اب کے چیف منسٹر کی پوزیشن ایل جی دفتر کے سامنے فائل کے ساتھ کھڑے رہنے والے چپراسی سے زیادہ کی نہیں ہوگی ، متن یہی تھا اور میں اس طرح کا چیف منسٹر بننا پسند نہیں کروں گا لیکن بعد میں انہوں نے نہ صرف الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ سنادیا بلکہ یہ کہا کہ تین مر حلوں میں انتخابات سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ یہ بتائی کہ ’’پا پا‘ ‘فاروق عبداللہ عمر پیری میں ہے اور ان کی صحت بھی نازک ہی ہے، اس لئے مجھ پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے دباؤ ہے۔ اگرچہ فاروق عبداللہ ابھی تک ٹھیک ٹھاک ہیں ، انہوں نے شروع میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی کے ساتھ ہمارے اتحاد کا کوئی امکان نہیں ، لیکن بعد میں وہ کانگریس کے ساتھ ہی انتخابی اتحاد کرگئے، کیونکہ پارلیمنٹ الیکشن میں بھی ان دونوں کا اتحاد نظر آیا تھا اور وہ شروع سے ہی نظریاتی طور پر مکمل ہم آہنگ رہے ہیں اور کشمیر الحاق بھی نہرو گاندھی اور شیخ عبداللہ کی ہم خیالی اور دوستی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک پہنچا تھا ۔ پی ڈی پی ترجمان موہت بھان نے کہا ہے کہ ریاستی درجہ اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی کیونکہ کسی کی بھی حکومت بن جائے وہ ایل جی کے وینٹی لیٹرپر ہی زندہ ہوگی اور یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کی تضحیک ہے۔
یوں بھی اب تک کے کشمیری وزرائے اعلیٰ بڑی حد تک نہ تین میں اور نہ تیراں میں کہیں نظر آیا کرتے تھے ، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں اور کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وزرائے اعلیٰ ہمیشہ تب تک ہی بر سر اقتدار رہا کرتے تھے جب تک ان پر مرکز کی نظر کرم رہا کرتی تھی ، لیکن اب ان نئے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا بی جے پی سرکار میں عوام جمہوری روح اور سپرٹ کے مطابق سر کار بنانے اور اپنے نمائندوں کو آزادی اور مرضی سے چننے کے اہل ہوں گے؟ اور کیا واقعی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا عمل دہرا کر اس معاملے میں بھی نئے کشمیر کی جانب ایک اور قدم بڑھایا جائے گا ؟ یہی وہ کسوٹی ہوگی جو اہم اور کلیدی اہمیت کی حامل رہے گی۔ اپنے ماضی اور کربناک انتخابی عملوں سے جوجموں و کشمیر کے عوام کا بھرم ہی ٹوٹ چکا ہے، اس سے بحال کرنے اور اس سے یہ احساس دلانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انتخابات منصفانہ اورآزادانہ ہوں اور سرکار کی پالیسی یہی ہو کہ وہ نتائج کو کھلے دل اور ذہن سے قبول کرنے کے لئے تیار ہو ، اور اس طرز عمل سے ذرا سا ہٹ کر سوچنا اور عمل پیرا ہونا مایوسی ، نا امیدی اورکسمپرسی کے احساس کو تقویت ہی پہنچا سکتی ہے جو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر قومی مفادات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور مستقبل کے لئے بھی کوئی خوش کن نتائج اور امیدوں کے چراغ نہیںجلا سکتی۔
حالیہ پارلیمنٹ الیکشن کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ این سی سرینگر اور ساوتھ کشمیر میں لیڈ لے گی اور نارتھ کی پارلیمنٹ سیٹ پر انجینئر نے تو کمال ہی کر دیا تھا ، لیکن پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات میں عوام کی نہج اور سوچ مختلف ہو تی ہے۔ اس لئے ابھی سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ کریں گے۔اس کی واضح تصویر عنقریب سامنے آئے گی ، لیکن ایک بات جو کلیدی اہمیت کی حامل ہے وہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے۔ اب یہ بات بھی کسی حد تک واضح ہورہی ہے کہ وادی میں بی جے پی کی حکمت عملی رہے گی کہ بظاہر وہ ڈائرکٹ ان انتخابات کا حصہ ضرور بنے گی،لیکن پارلیمنٹ انتخابات کی طرح پردوں کے پیچھے رہنے کو ہی ترجیح دے گی،کیونکہ سوشل میڈیا، الکٹرانک ، پرنٹ میڈیا،ملازمین کی گہما گہمی اور سکولی بچوں کے ایونٹس، اکثر و بیشترزمینی حقائق سے مختلف ہوتے ہیں اور اس کا احساس پارلیمنٹ الیکشن میں بھی بی جے پی کو تھا اور آج بھی ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان انتخابات میں کس کا پلڑا بھاری رہے گا اور کون اقتدار پر براجمان ہوگا۔