دنیابلاشبہ مادی ترقیوں کے میدانوں میں سر پٹ دوڑتے ہوئے زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی اونچائیوں کو برابر مسخر کر تی جا رہی ہے مگر اس کے بین بین یہی دنیا اخلاقی تنزل کے چلتے متواتر پستیوں اور ناآسودگیوں کے دوزخ میں بھی لڑھکتی جارہی ہے ، نتیجہ یہ کہ سنسنی خیز جرائم ،دھوکہ بازی ، بے ایمانی، حرام خوری، رشوت ستانی، ڈنڈی ماری، منشیات اور طرح طرح کی غلاظتیں اپنی عفونت شرق وغرب پھیلارہی ہیں۔ افسوس کہ کشمیر جیسی امن پسند اور نیک عمل قوم بھی جرائم کے دلدل میں پھنستی جا رہی ہے اور اس دلدل سے کشمیری سماج کو نکال باہر کر نے کی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بنابریںاس چرب دست وتر دماغ قوم کا ایک قابل لحاظ حصہ مجرمانہ حرکات کا مرتکب ہوکراپنے اخلاقی تشخص اورقومی خصائل سے ہاتھ دھو تا جارہاہے ۔ حق یہ بھی ہے کہ یہاںکی جوان پود ایک جانب شرح خواندگی میں مسلسل بڑھوتری اور مختلف میدانوں میں اپنی متاثر کن کارکرگی سے قوم کا سینہ پھلارہی ہے مگر دوسری جانب جرائم کے گراف میں اضافہ در اضافہ سے ہر باشعور کشمیری کا سر شرم سے جھک رہا ہے ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اخلاقی فساد کی تخم ریزی ہونے کے مختلف اسباب و محرکات ہیں ۔ ان کی ایک شکل مخلوط کو چنگ سنٹرہے۔ ان مراکز میں کہنے کو طلبہ وطالبات کو ٹیوشن پڑ ھا یا جا تا ہے اوراکثر و بیشتریہاں زیرتعلیم زیادہ تر سٹوڈنٹ سنجیدگی کے ساتھ اپنے کیر ئیر تعمیر کر نے اور مسابقتی امتحانات کے میدان مارنے کے لئے ہی رجوع کر تے ہیں ۔ ان کے والدین بھی آنکھوں میں اپنی اولاد کے واسطے شاندار مستقبل بنانے کے حسین خواب سجا کر اور نیک ارادوں کی دنیا بساکر اپنے لاڈلوں کو بصد شوق ان میں داخلہ دلاتے ہیں اور خوشی خوشی ان کی بھاری بھرکم فیس کا مالی بوجھ بھی اٹھا تے ہیں۔ اکثر غریب والدین اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر بچوں اور بچیوںکے تعلیمی اخراجات اوران کی نت نئی فرمائشیں پو ری کر نے میں کو ئی پس وپیش نہیں کر تے ۔اُدھر یہ سب کچھ ہے، اِدھر معاشرہ اخلاقیات سے دن بہ دن تہی دامن ہو تا جارہاہے ، تطہیر معاشرہ کا جذبہ دن بہ دن مفقود ہوتا جارہا ہے ، تعلیم وتعلم کا آدم گر انہ مشغلہ سر تا پا کمرشلزائز ہو تا جا رہا ہے ، تعلیم کا ناقص تصور اور ناہنجار تدریسی نظام نسل ِ نو میں فرسٹیشن بڑھاتا جارہا ہے ، منشیات کا ناقابل بیان مرض سماج میں اپنے بال وپر پھیلاتا جا رہا ہے اور جو کو ئی کمی رہ جا ئے اُسے بالی وڈ فلموں کا ننگا پن ، ماردھاڑ ، جنسی ہیجان ، جنسی کی آگ بھڑکا نے والی فیشن پرستی جیسی جان لیوا ور بائیں پورا کر رہی ہیں۔ اس طرح کی گھمبیر صورت حال کا تدارک کر نے کے ضمن میں سول سوسائٹی ، سماجی اصلاح کاروں اور مذہبی انجمنوں پر واقعی ناقابل التواء ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،لیکن جب وہ ان سے تجاہل عارفا نہ بر ت لیں تو بگاڑ کے خزاں کا بناؤ کی بہاروں میں بدلنے کی کیونکر تو قع کی جاسکتی ہے؟ سماجی سطح پر انتہائی ناگفتہ بہ حالات کے اس مایوس کن منظر نامے میں نئی نسل کے اندرجرائم کی طرف میلان اوررجحان بڑھ رہا ہے ۔ ہاں، واقعی اس بارے میں سر کاری سطح پر اصلاح ِ احوال کی ایک موہوم سی امید پولیس فورس کے ڈنڈے اور قانون کے ڈر سے وابستہ کی جاسکتی تھی مگر گزشتہ اٹھائیس سالہ طویل قیامت خیزسیا سی ہلچل نے اس محکمہ کارول ان حوالوں سے مشکل تر بنادیا ہے ۔ ورنہ اس بات کی کیا توجیہہ کی جائے کہ پولیس کی بھاری نفری کے باوجود قانون شکن افعال مثلاً منشیات ، جنسی جرائم، لوٹ کھسوٹ، بدکاریاں اور ہمچو قسم کی حرام کاریاں سماج میں رُکنے کانام نہیں لے رہیں ؟ اس تیکھے سوال کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو ۔ بہر کیف جب تک پولیس اور اس کے پہلو بہ پہلو سماجی ریفارمر معاشرے کے تئیںاپنی اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو نے سے دیدہ ودانستہ غفلت برتیں گے ، جرائم کی کوکھ سے بدستور غلط کاریاں اور گناہ گاریاں جنم لیتی رہیں گی بلکہ اُن کے تواتر اور تسلسل میںمزید شدت پیدا ہو ۔ یہ بات بلا خوف تر دید کہی جا سکتی ہے کہ جب دلی میں پھول چہرہ سنجے چوپڑا ور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا جیسے نامی گرامی بدمعاشوں نے اغواء کر کے وحشیانہ موت کے گھاٹ اتاردیا تو یہ پولیس ہی تھی جس نے فوری طورحرکت میں آکر انسانیت کے ان مجرموں کو پھا نسی کے پھندے تک لا یا اور انہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچاکر کم ازکم مجرموں بد معاشوں کو اپنے وجود کا احسا س تو دلایا۔ اسی طرح سال 2012 میں جب رات کے اندھیرے میں دامنی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا اندوہناک المیہ دلی میں پیش آیا تو کسی اور نے نہیں بلکہ بیدارمغز سماج نے مجرموں کو ایک ایک کر کے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑ ا کرنے میں اپنا فیصلہ کن رول نبھایا ۔ یوں سماج اورقانون نے مجرموں کے سامنے خود سپردگی اور جرائم کے آگے بھیگی بلی بننے کی بجائے جب اپنی فرض شناسی اور فعالیت کی دھاک بٹھائی تو عوام الناس کی جیت ہوئی اور مجرموں کی ہار ہوئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے عامہ کے غیر معمولی دباؤ اور موثر پولیس کارروائیوں کے باوجود دلی سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں برابر اس نوع کے کرائم مسلسل ہو رہے ہیں۔ تاہم قانون اور سماج کے حرکت میں آنے سے مجرموں نے محسوس کیا کہ وہ اتنے آزاد اور بے لگام نہیں ۔ اس سے واقعی جرائم پیشہ لوگوں کی کسی نہ کسی درجہ حوصلہ شکنی بھی ہوئی۔ اس کے برعکس یہاں سماج اور قانون بغیر کسی لومت لائم کے مجرموں کے سامنے خود کو گونگا ، بہرا اور اندھا ثابت کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے درمیان آئے دن جرائم کا بول بالا اور گناہوں کا بے تحاشہ دور دورہ ہو رہا ہے ۔ لازم ہے کہ جب تک پولیس فورس کے شانہ بشانہ خود سماج بھی جرائم کی منظم انداز میں روک تھام کے لئے احسا س ِ ذمہ داری سے لیس ہوکرایک ثمر بار غیر سیاسی اصلاحی مہم نہیں چلاتا ، پیر واری کہلانے والی اس سرزمین میں جرائم کی نر سر یاں کبھی کو چنگ سنٹروں کے بہا نے ، کبھی باغات اور میلوں ٹھیلوں کی آڑ میں اور کبھی کلچرل پروگراموں وغیرہ کے رُوپ میں پروان چڑھتی رہیں گی۔ اس ضمن میں حقیقی طوروالدین کسی بھی حال میں اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔انہیں یہ دیکھنے کی بھی لامحالہ زحمت گوارہ کر نی چا ہیے کہ ان کی اولادیں کیا کررہی ہیں ؟ان کی دلچسپیاں کیا ہیں ؟ ان کے دوست کس قبیل وقماش کے ہیں؟ اُن کی اصلاح باطن کے لئے وہ خود کس طرح صحت مند قدروں کو عملاً برت کر انہیں بچوں اور بچیوں میں منتقل کررہے ہیں؟ سرکاری اور سماجی سطحوں پر اگر اپنی اپنی مفوضہ ذمہ داریوں سے بھر پور ا نصاف کیا گیا تو بڑی حد تک ہماری نسل ِ نو غلط کاریوں یاجرائم کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہے گی ، ورنہ ایں خیال است او محال است او جنون۔