سرینگر// پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد سرینگر کے باب نماز جمعہ کیلئے مسلسل21ویں ہفتے بھی مقفل رہے جبکہ امسال مجموعی طور پر 45 ہفتوں تک نماز جمعہ کے موقعہ پر جامع مسجد کے منبر و محراب اور میناروں سے اذان نہیں گونجی۔کل جمعہ کو ایک بار پھر تاریخی جامع مسجد سے نماز کی اجازت نہ دینے سے مایوس اور دل ملول ہوئے لوگوں نے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جب کوویڈ صورتحال بہتر ہے تو انتظامیہ کو چاہئے کہ اس روحانی مرکز میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت دی جائے۔ غلام قادر نامی ایک بزرگ شری نے بتایا کہ جامع مسجد سرینگر ان کیلئے ایک روحانی سکون کا مقام ہے اور وہ گزشتہ40برسوں سے یہاں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پرانے دوستوں سے نماز جمعہ پر ملاقات بھی ہوتی تھی۔ ایک تاجر نے کہاکہ جامع کو جمعہ کے موقعہ پر مقفل رکھنے سے انکا کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔مارچ میں امسال کوویڈ میں اضافے کے نتیجے میں جامع مسجد میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی،جس کے بعد مسلسل14ہفتوں تک یہ صورتحال جاری رہی اور 6 اگست کو نماز جمعہ کی اذان سے جامع مسجد کے در و دیوار گونج اٹھے۔ بعد میں ایک مرتبہ پھر نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی جو ہنوز سال کے آخری دن تک21ہفتوں سے جاری ہے۔ ریاست کی مذہبی اور سیاسی تاریخ میں اگرچہ جامع مسجد کو مرکزی حیثیت ریاست کی مذہبی اور سیاسی تاریخ میں اگرچہ جامع مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہیں،اور اس روحانی مرکز کو کشمیری مسلمانوں کیلئے بند کرنے کی روایت اور تواریخ بھی پرانی ہے،تاہم دور حاضر میں2010کے بعد جامع مسجد کے دروازوں کو نماز جمعہ کیلئے مقفل کرنا معمول بن چکا ہے۔ 2010کی ایجی ٹیشن کے دوران مسلسل2ماہ تک اس تاریخ مسجد مین نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی۔ 2016 میں جامع مسجد سرینگر مسلسل19ہفتوں تک بند رہیں،جبکہ سال 2017 میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر21ہفتوں تک جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی۔ 2018میں بھی 13 مرتبہ اس روحانی مرکز کو نماز جمعہ کیلئے بند رکھا گیا۔ سال 2019 میں جامع مسجد سرینگر25ہفتوں تک مقفل رہی جبکہ سال2020میں مجموعی طور پر40ہفتوں تک نماز جمعہ کیلئے مقفل رہی۔