ملک منظور
ایک جنگل کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا ۔گاؤں کے لوگ کسان تھے ۔ وہ کھیتی باڑی کرکے اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ غربت کی وجہ سے وہ جدید تکنیکوں سے بےبہرہ تھے اس لیے وہ دن بہ دن ترقی کے بجائے تنزلی کے شکار ہورہے تھے ۔ایک دن رحیم نامی ایک کسان کی بکری کہیں کھوگئی ۔ وہ اس کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگا لیکن بکری کہیں نظر نہیں آئی ۔شام کے وقت رحیم ایک مشعل لے کر جنگل کی طرف بکری ڈھونڈنے کے لئےگیا۔ چلتے چلتے وہ جنگل کی جھاڑیوں میں پہنچا ۔ جھاڑیوں کے پاس ایک چھوٹی چراگاہ تھی ۔چراگاہ میں رحیم کو ہلچل محسوس ہوئی ۔ وہ ہلچل والی جگہ کی طرف بڑھنے لگا ۔ابھی وہ کچھ قدم ہی چلا تھا کہ اس کو ایک بڑا ثعبان اور دو شیر نظر آئے ۔ ان دو شیروں نے ثعبان کو سر اور پونچھ سے پکڑا تھا ۔ ثعبان خود کو ان خونخوار شیروں کی چنگل سے چھڑانے کی بھر پور کوشش کررہا تھا لیکن وہ کامیابنہیں ہورہا تھا ۔ رحیم نے جب یہ خوفناک منظر دیکھا تو وہ ڈر گیا ۔اس نے مشعل وہیں چھودی اور بھاگ گیا۔ ادھر جب جنگل کے شیروں نےآگ کی مشعل دیکھی تو وہ غراتے ہوئے بھاگ گئے ۔ثعبان آزاد ہوگیا ۔ بھاگتے بھاگتے رحیم کو یاد آیا کہ اس کی مشعل سے جنگل میں آگ لگ سکتی ہے جو بھیانک شکل اختیار کر کے ہزاروں جانوروں کو بھسم کرسکتی ہے ۔ اس لئے وہ واپس لوٹا تاکہ مشعل کو بجھا سکے ۔ جب وہ مشعل کے قریب پہنچا تو ثعبان نے اس کو گھیر لیا ۔ رحیم ڈر گیا ۔اس نے مشعل اٹھائی اور ثعبان کو آگ کے ڈر سے بھگانے کی کوشش کی لیکن ثعبان نے سر قدموں میں رکھ کر کہا۔
” شکریہ میرے محسن ۔آج آپ نے میری جان بچا کر مجھے اپنا غلام بنایا ۔”
رحیم یہ دیکھ کر حیران ہوگیا ۔اس نے مشعل بجھائی اور ثعبان سے کہا ۔” دوست آپ کی زندگی خالق حقیقی نے بچائی ۔میں تو بس ایک ذریعہ بنا ۔”
ثعبان نے رحیم کو کچھ انوکھے بیج دے کر کہا ۔” یہ بیج میں نے جنگل کی گہرائی سے حاصل کئے ہیں ۔ ان کو اپنی کھیت میں بونا ۔ان سے آپ کا بھلا ہوگا۔”
رحیم نے بیج اپنی کھیت میں بوئے ۔ وقفے وقفے پر پانی دیا ،گوبر ڈالا اور کھرپی سے غیر ضروری گھاس نکالی ۔کچھ عرصے کے بعد رحیم کے کھیت پھولوں سے مہکنے اور لہلہانے لگے ۔ انوکھے پھولوں کی خوبصورتی نے ماحول میں خوشبوئیں بکھیر دیں ۔ ایک دن گاؤں میں چند سیاح آئے ۔ سیاح پھولوں کی دلکش کیاریاں دیکھ کر بہت خوش ہوگئے ۔ انہوں نے کیاریوں میں تصوریں کھینچی اور سوشل میڈیا پر ڈال دیں ۔ سوشل میڈیا پر آتے ہی وہ تصویریں وائرل ہوگئیں ۔ رحیم پھولوں کی آبیاری کر ہی رہا تھا کہ شہر سے ایک ٹیم اس کے گھر پہنچی ۔ ٹیم نے پھولوں کا سنجیدگی سے معائینہ کرکے دیکھا تو پتہ چلا کہ ان پھولوں کے مربّے سے کئی مہلک بیماریوں کا علاج ہوسکتا ہے۔ انہوں نے رحیم کو ایک بڑی رقم دے کر سارے پھول خریدلئے ۔یوں رحیم چند دنوں میں ہی مالا مال ہوگیا ۔
رحیم کے دوسرے پڑوسی کسانوں کو رحیم کی کھیتی پر رشک ہوا ۔ وہ سب ایک دن رحیم کے پاس آئے اور اسے کہا ۔
” بھائی رحیم ، ہم بھی یہ پھول اُگانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بھی ان کے بیج دینا چاہیں گے ؟ ”
” کیوں نہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب بھی یہ پھول اُگائیں تاکہ ہم سب کا بھلا ہو اور پورا گاؤں ایک خوشحال گاؤں بن جائے ۔” رحیم نے سخاوت بھرے لہجے میں کہا ۔
ایک دن رحیم ثعبان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے جنگل چلا گیا ۔جب وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے ثعبان کو ایک انسان کا پیچھا کرتے دیکھا ۔ وہ جلدی جلدی ثعبان کے پاس گیا اور پوچھا ۔” ثعبان تم اس معصوم آدمی کا پیچھا کیوں کر رہے ہو ۔ اس نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔ ”
” یہ معصوم نہیں بلکہ لالچی انسان ہے ۔اس کی لالچ کی کوئی حد نہیں۔ میں گھر سے باہر کیا نکلا تو یہ مجھے لوٹنے کے لیے آیا ۔” ثعبان نے غصے سے کہا
” تمہارے گھر میں ایسا کیا ہے جو یہ لوٹ کر لے جاتا؟ ”
رحیم نے پوچھا ۔
” میرے گھر میں ایک بڑا خزانہ ہے ۔میں اس خزانے کا محافظ ہوں ۔” ثعبان نے کہا
” وہ خزانہ تمہارے کس کام کا ہے ۔ اگر تم وہ خزانہ ان غریبوں میں بانٹ دو گے تو یہ اور ان کے بیوی بچے تم کو دعائیں دیں گے جس سے تمہارا بھی بھلا ہوگا ۔” رحیم نے کہا ۔
” بات تو صحیح ہے وہ خزانہ میرے کس کام کا ! ٹھیک ہے، میں وہ دولت ان غریبوں میں بانٹ دیتا ہوں لیکن کچھ ہیرے آپ بھی لے لو”، ثعبان نے کہا
” نہیں میرے لئے میرے کھیت کافی ہیں ۔میں ان سے ہی کمائی کرلوں گا ۔” رحیم یہ کہہ کر چلا گیا۔
ثعبان نے سارا خزانہ غریبوں میں بانٹ کر خود کو دولت کی زنجیروں سے آزاد کردیا ۔ وہ جنگل میں خوشی خوشی گھومنے لگا ۔ کئی سال گزر گئے۔ رحیم پھر ثعبان سے ملنے آیا لیکن نہ وہاں ثعبان تھا اور نہ ہی جنگل کے اونچے اونچے درخت۔ وہ ثعبان کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگا تو وہ کہیں نظر نہیں آیا ۔اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو جہاں کچے مکان ہوا کرتے تھے وہاں اونچی اونچی عمارتیں بن گئی تھیں ۔ جنگل کے بیچوں بیچ فیکٹریاں بنی تھیں ۔ رحیم بستی کی طرف چل پڑا ۔ وہ بستی میں لوگوں کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوا ۔ وہاں بچے اور جوان اچانک تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا جیسےکوئی اجنی طاقت ان کو ڈس رہی ہو ۔ لوگ کافی پریشان تھے ۔ رحیم ابھی بھی ثعبان کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ وہ کہاں گیا ہوگا کہ
اچانک اس کی نظر فضا میں گھوم رہے ایک کالے بھوت کی طرف پڑ گئی ۔ وہ بالکل ثعبان کی طرح دکھ رہا تھا ۔
” یہ کیسی آفت ہے جو اس شہر پر منڈلا رہی ہے ۔” وہ بڑبڑانے لگا ۔کہ آواز آئی ۔” میں نے کہا تھا نا کہ یہ آدمی لالچی اور خودغرض ہے۔ دولت ملتے ہی اس کے تیور بدل جائیں گے ۔اس نے میرے گھر کو اجھاڑا اور پھر مجھے بھوت بنادیا ۔اب میں کالا بھوت بن کر ان کو ڈس رہا ہوں اور ان کی نسلوں کو برباد کررہا ہوں ۔”
” تم ثعبان ہو ۔” رحیم نے پوچھا
” ہاں میں ثعبان ہی ہوں ۔ تم اپنے کھیتوں کی حفاظت کرنا اور دولت کی لالچ نہ کرنا ” آواز آئی ۔
اس کے بعد رحیم گھر لوٹا اور اپنے سرسبز کھیتوں کو دیکھ کر سوچنے لگا ۔” اگریہ کھیت کھلیان باقی نہ رہے تو لالچی انسان پیٹ کیسے بھرے گا۔”
���
کولگام جموں وکشمیر