سرینگر // وادی کشمیر میں مقامی نوجوانوں کے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے کے رجحان میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک پر دو نوجوانوں کی ہاتھوں میں اے کے 47 تھامے تصویریں وائرل ہوگئی ہیں اور ان تصویروں کے کیپشنز میں مذکورہ نوجوانوں کی شناخت اور تنظیم کا نام ظاہر کیا گیا ہے۔ اس طرح سے گذشتہ تین ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ کر 6 ہوگئی ہے۔ ان میں تحریک حریت جموں وکشمیر کے نو منتخب چیئرمین محمد اشرف صحرائی کا فرزند جنید اشرف خان اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ریسرچ اسکالر منان بشیر وانی بھی شامل ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیاں کشمیری نوجوانوں کی عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت میں اضافے کو پہلی ہی تشویش ناک قرار دے چکی ہے۔ ان کے مطابق کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہتھیار اٹھانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ مرکزی داخلہ سکریٹری راجیو گابا ،جنہوں نے پیر اور منگل کو سری نگر میں دو روزہ قیام کے دوران ریاست کی مجموعی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا، نے کشمیری نوجوانوں کے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مقامی نوجوانوں کو مختلف سرگرمیوں بشمول کھیل کود میں مصروف کرنے کی ہدایت دی ہے۔ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہونے والی تصویروں کے کیپشنز کے مطابق فید مشتاق وازہ ولد مشتاق احمد وازہ ساکن خانیار سری نگر نے لشکر طیبہ جبکہ روف بشیر کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن ارہ دہرنہ تحصیل ڈورو ضلع اننت ناگ نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی ہے۔ خانیار سری نگر کے رہائشی فید مشتاق وازہ کی تصویر کے کیپشن کے مطابق اس نے 23 مارچ کو لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی ہے اور اسے ’ابو اسامہ ‘ کاڈ نام دیا گیا ہے۔ دہرنہ ڈورو اننت ناگ کے روف بشیر کھانڈے کی تصویر کے کیپشن کے مطابق اس نے 4 فروری کو حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی ہے اور اسے ’عمر حیات‘ کوڈ نام دیا گیا ہے۔ تصویر پر لکھا ہے کہ وہ بی اے سال اول کا طالب علم تھا اور اس نے قرآن پاک کے 15 پارے حفظ کئے ہیں۔ ریاستی پولیس کے مطابق فید مشتاق وازہ کے والدین نے پولیس تھانہ خانیار میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ دراج کرائی ہے۔ 24 مارچ کو تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف صحرائی کے فرزند جنید اشرف خان نے حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔جنید کی وائرل ہونے والی تصویر پر لکھا تھا کہ اس نے کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ تصویر پر تنظیم کا نام ’حزب المجاہدین‘، شمولیت اختیار کرنے کی تاریخ ’24 مارچ 2018‘ اور ولدیت ’محمد اشرف صحرائی‘، سکونت ’باغات برزلہ لکھا ہواتھا۔ اسے ’عمار بھائی‘کوڈ نام دیا گیا ہے۔ 24 مارچ کو ہی جنوبی ضلع پلوامہ کے خان گنڈ ترال کے رہنے والے عابد مقبول بٹ کی بندوق تھامے تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے کیپشن میں لکھا تھا کہ عابد نے جیش محمد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ عابد مقبول جو مبینہ طور پر ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کا بیٹا ہے، کو ’عمر بھائی‘ کوڈ نام دیا گیا ہے۔ جنوری کے اوائل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر منان بشیر وانی نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی۔ شمالی ضلع کپواڑہ کے ٹکی پورہ لولاب کے رہنے والے منان وانی کی بندوق تھامے تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علموں اور اہلیان کشمیر کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔ تاہم علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علموں ، اپنے والدین اور ہزاروں کشمیری نوجوان کی اپیلوں کے بعد بھی منان نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ لولاب میں منان وانی کے بعد ایک اور نوجوان بلال احمد شاہ نے مارچ کے اوائل میں حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ 24 سالہ بلال احمد ولد شمس الدین کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ ریاستی حکومت کے مطابق وادی میں گذشتہ تین برسوں کے دوران 280 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جنہوں نے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہے، نے 6 فروری کو جموں میں قانون ساز اسمبلی میں نیشنل کانفرنس رکن و جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کے ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا تھا ’گذشتہ تین برسوں میں 280 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے ‘۔ انہوں نے کہا تھا ’2015 میں 66، 2016 میں 88 اور 2017 میں 126 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ‘۔ حکومتی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا تھا کہ وادی میں 8 جولائی 2016 ء کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سے فروری 2018 تک قریب دو سو مقامی نوجوانوں نے بندوقیں اٹھاکر جنگجو تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ ریاستی پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گذشتہ تین مہینوں کے دوران کم ازکم ایک درجن مقامی جنگجوؤں نے سیکورٹی فورسز کے سامنے خودسپردگی اختیار کی ہے۔ ریاستی پولیس سمیت دوسرے سیکورٹی اداروں نے اس رجحان کو گھر واپسی کا نام دیا ہے۔ تاہم ریاستی پولیس نے گھر واپسی اختیار کرنے والے بیشتر نوجوانوں کی شناخت ظاہر کرنے سے معذرت ظاہر کی۔