ریاست میں سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کے سبب ٹریفک کی آمد ور فت میں جو خوفناک نوعیت کی بے ترتیبی پھیلی ہوئی ہے، اُس سے سماج کاسنجیدہ فکر اور حساس طبقہ انتہائی پریشان ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان بے ضابطگیوں کے مرتکب ہونےوالے کوئی غیر نہیں بلکہ وہ بھی ہمارے ہی سماج کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے سے سبقت لینے کی فکر میں گاڑیاں ڈرائیو کرنے والے تمام ٹریفک قواعد کو بالائے طاق رکھ کر سانپ سیڑھی کی طرح گاڑیاں دوڑاتے ہیں جس سے نہ صرف تواتر کے ساتھ حادثات درپیش آتے ہیں بلکہ ٹریفک جام کی وجہ سے روزانہ ہزارں کی تعداد میں راہگیروں کو قیمتی وقت کے زیاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ کم و بیش تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کا حال یہی ہے، لہٰذا اسکولوں کی طرف سے استعمال کئے جانے والے ٹرانسپورٹ کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ نجی سکولوں کی گاڑیوں میں حساس اور مثبت سوچ رکھنے والے ڈرائیور موجود نہیں ہیں لیکن ایسے حضرات کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو لاپرواہانہ ڈرائیونگ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔پرائیوٹ سکولوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی ٹرانسپورٹ سہولیات پر توجہ دینے کےلئے محکمہ تعلیم نے اگر چہ نجی سکولوں کے منتظمین کو واضح ہدایات دے رکھی ہیں اور اس حوالے سے ایک سرکاری ہدایت نامہ بھی موجود ہے لیکن اسکے باوجود کئی سکولوں کی جانب سے ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر چہ اسکولوں کی مختلف انجمنیں بھی اپنے اراکین کو اُن ہدایات، جو اصل میں عدلیہ کے احکامات کے مطابق مرتب کی گئی ہیں، پر عمل درآمد کیلئے زور ڈالتی رہتی ہیں،لیکن اسکے باوجود روزانہ سڑکوں پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جب طلبہ کو لانے لے جانے والی یہ گاڑیاں طوفانی رفتار کے ساتھ چلتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ خاص کر جن گاڑیوں میںچھوٹی کلاسوں کے بچے سوار ہوتے ہیں انہیں تیز رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر دیکھنے والوں کا دل دہل جاتا ہے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی کو اس میں شمار کیا جاسکتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متعدد ڈرائیور اکثر تیز رفتاری کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں، حالانکہ بیشتر ریاستوں میں اسکولی گاڑیوں پر رفتار قابو کرنے والے آلات(Speed Governer)نصب کرنے کی ہدایات موجود ہیں، جنکے تحت کوئی بھی ایسی گاڑی چالیس کلو میٹر سے زیادہ رفتار پر چلنے کی اہل نہیں ہوسکتی ، مگر یہاں ایسا کچھ نظر نہیںآتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لاپرواہ طبعیت کے حامل ڈرائیور اپنی رفتار پر قابو نہیں رکھتے،جس کی وجہ سے بچوں کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کئی اسکول گاڑیوں میں سیٹنگ سہولیات کے مطابق طلبہ کو سوار نہیں کرتے۔ خاص کر چھوٹی گاڑیوں میں منظور شدہ نشستوں سے زیادہ مقدار میں سواریاں بٹھائی جاتی ہیں، حالانکہ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ واضح ہدایات موجود ہیں کہ اسکولی گاڑیوں میں منظور شدہ نشستوں سے زیادہ بچوں کو نہیں بٹھایا جانا چاہئے مگر متعدد اسکولوں ،خاص کر پری نرسری، نرسری اور پرائمری درجوں کے سکولوں، کی طرف سےچلائی جانے والی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ٹھُنسےٹھُنسے نظر آنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اسکےعلاوہ سکولوں کی جانب سے کرائے پر حاصل کی جانے والی گاڑیوں پر سرکاری ہدایات کے مطابق زدر رنگ اور ان پر جلی حروف میں سکول کا نام اور رابطہ نمبر درج کرنے میں بھی کوتاہی کی مثالیں موجود ہیں۔ سکو ل بسیں چلانے والےڈرائیوروں کو ہلکی گاڑیاں چلانے کا کم ازکم پانچ سالہ تجربہ ہونا لازمی ہے۔ کیا اسکی کبھی جانچ ہوتی ہے؟ یہ محکمہ ٹریفک کنٹرول ہی بتا سکتا ہے، تاہم یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ متعلقہ محکمہ کی جانب سے خال خال ہی ایسی جانچ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ناظم تعلیمات کشمیر نے حال ہی میں پرائیوٹ سکولوں کے منتظمین کے ساتھ ایک نشست میں ان ہدایات پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنے پر زور دیا ہے۔ اگر چہ اسکولوں کے انتظامی صیغوں کی جانب سے بار بار ایسی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں مگر ہدایات کی خلاف ورزی کے معاملات کو یکسر مسترد نہیںکیاجاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ والدین کی جانب سے شکایات درج کئے جانے کے نتیجہ میں اسکولی منتظمین کاروائیاں کرتے ہیں، لیکن پرائیوٹ اسکولوں کے منتظمین پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایک ایسا میکانزم قائم کریں جس کے تحت وہ وقتاً فوقتاً از خود ایسے معاملات جائزہ لیتے رہیں۔ بہر حال بچے ہمارا مستقبل ہیں اور قوم کی فلاح و بہبود کی بنیا د نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مضمر ہے، لہٰذا اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے نجی اسکولوں کے منتظمین کو ٹرانسپورٹ سہولیات میں معقولیت لانے کےلئے اپنی سفارشات بھیجنے کی ہدایت ضرور کی ہے تاہم متعلقہ محکمہ کو اپنے طور پر بھی ایک ایسا میکانزم تیار کرناچاہئے، جس سے مختلف اقسام کی خلاف ورزیوں کی روک تھام ممکن ہوسکے۔ علاوہ ازیں والدین اور سماج کے ذی حس طبقوں کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔