بھنور بھنور تجھے موجوں میں راستہ دے گا
خدا ہے ساتھ تو پھر نا خدا تلاش نہ کر
دنیا کا ہر انسان اپنے اپنے حصے کی زندگی تلاش گزارتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس تلاش کے اپنے اپنے اصول و ضوابط مقرر ہیں جن پر چل کر آدمی کبھی تلاش کی منزلوں سے خود تلاشی کا شکار بن جاتا ہے اور کبھی خود تلاش اپنا راستہ بھول جاتی ہے جس کی وجہ سے سیدھے راستے کا نظر آنا نا ممکن عمل بن جاتا ہے۔ اس طرح سے سفر طویل بھی ہوتا اور کٹھن بھی لیکن کچھ انسان اس قدر بخت آور ہوتے ہیں کہ وہ جس تلاش میں نکل جاتے خود تلاش ہی ان کی تلاش میں سامنے آتی ہے ۔اس طرح سے ان کی زندگی کا کاروان آگے بڑھتا ہے۔
آدمی کے مزاج کا اثر یقینا ً اس کی تلاش پر پڑتا ہے اور نتیجتاً وہ موج دریا کا سامنا کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے مگر یہ مجبوری وقتاً فوقتاً انتہائی خطرناک یا سبق آموز امتحان لیتی ہے یہاں تک کہ آدمی کو ہوش سنبھالنے میں نصف عمر لگ جاتی ہے ۔یہ سنبھالنے کا فن بھی عجیب عالم رکھتا ہے، سنبھلا توسنبھلا ،نہ سنبھلا تو فنا کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جہاں سے واپس لوٹ جانا نا ممکنات میں شامل ہے۔ اس طرح سے یہاں پر تلاش کا سفر ناممکنات کے حصار میں مقید ہو جاتا ہے، نیز اس طرح سے دنیا میں ایک شخص اپنی تلاش کو لیکر ہمیشہ کے لئے ابدی سفر پر روانہ ہو جاتا ہے ۔
تلاش کی کاروائی اور تلاشی کاروائی اطلاقی سطح پر الگ الگ نسبتیں رکھتی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل جدا جدا ہیں ۔تلاش کی کاروائی کا منظم نظام کار فرما رہتا ہے جبکہ تلاشی کاروائی بے ترتیب خیالات کا بے ترتیب نظام ہے جس میں دل کے ہر گوشے کی تلاشی لینی مطلوب ہوتی ہے ،دماغ کی ہر نس کا سرچ آپریشن کیا جاتا ہے جس میں سے وجود فطرت کا علم حاصل کرنے میں سہولیات پیدا ہو جاتیں ہیں لیکن سہولیات بھی کیسی جو ہزار پرتوں میں پوشیدہ، کہاں سے شروع کریں اور کہاں پر ختم ،نہ پوشیدگیاں ظاہر ہوتیں ہیں اور نہ ہی اختتام کا کوئی عمل در آمد ہوتا ہے ۔یہاں سے وجود کی تلاش سامنے آتی ہے جس میں فن فلسفہ کی ابتداء ہوتی ہے، آنے کا سوال، جانے کا سوال، کیوں آنے کا سوال ، کیوں جانے کا سوال ، کہاں سے آنے کا سوال ، کدھر سے جانے کا سوال ، کس حال میں جانے کا سوال، ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کا رشتہ، آنے کی وجہ بلکہ ’’ڈبویا مجھے کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘ جیسے استفسارات پر نئی تلاش معرض وجود آتی ہے ۔ جس کا ہر مقام کوئی پتہ رکھتا ہی نہیں ۔اس لئے ان کی تلاشی کاروائی کا اندازہ نہایت مختلف ہو سکتا ہے ۔ یوں تلاش کی مختلف قسمیں موجود ہیں جن کی بدولت اس کے جمالیاتی حسن کو جانا جا سکتا ہے مثلاً تلاش حق، تلاش حسن، تلاش آب و دانہ،پروانۂ تلاش، خانہ تلاشی ، جامہ تلاشی اور گھر تلاش کرنا، تلاشِ علم و ہنر، تلاشِ سکون، وغیرہ اس طرح کی تمام قسمیں الگ لگ کائنات رکھتی ہیں۔ تلاش حق بذات خود ایک ایسی تلاش ہے جس میں حق پر مبنی ایک طویل کہانی منضبط ہے جو حق کے دروازے سے داخل تو ہوتی ہے لیکن اس کو نکلنے کا کوئی راستہ میسر نہیں آتا۔ اب اگر آدمی اس حق سے پوری طرف واقف ہوا تو آپے سے باہر ہو جائے گا جس کے لئے تمام معنیٰ بے معنیٰ ہو کر رہ جاتے ہیں اور وہ بے سروسامانی کی حالت میں دشت گردی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔
حرم کو جائے یا دیر میں بسر کرے
تیری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کرے
تلاش آب و دانہ مشکل قسم کی تلاش ہے جس میں آپ کو باہوش و حواس رہنا پڑے گا کیونکہ یہ تلاشِ رزق اور تلاش معاش کا معاملہ ہے اس تلاش میں ہزاروں خدشات اور اوہامات سے گزرنا ضروری ہے ۔ شہر کی گلی دیکھنی پڑتی ہے دفتروں کے دفتروں کو جانا پڑتا ہے یہاں تک ان کی تلاش بھی شروع کرنے پڑتی ہے جس کی تلاش میں آپ بھی اہم شخص ہے اور اگر شخصیت اور شخص دونوں ہم خیال ہوئے تو ضرور ایک مکمل خیال قائم کیا جا سکتا ہے جو تلاش آب و دانہ کو پورا کرے گا ۔
خانہ تلاشی کا پروانہ ٔ اس بات کا بین ثبوت کہلایا جاتاہے کہ آپ کو تلاش کیا جا رہا ہے آپ کے گھر کی تلاشی لینی مطلوب ہے نیز اس تلاشی کاروائی میں کس کی تلاش مقصود ہے آپ کو اس سے بے خبر ہی رکھا جا رہا جو کہ حکمت عملی کا ایک اصول ہے اس کے بعد ایک اور ضروری تلاشی لی جاتی ہے جس کو جامہ تلاشی کہا جاتا ہے جس سے معنوی سطح پر یہ مُراد لیا جانا چاہئے کہ لباس کی تلاش لینی مطلوب ہے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے جامہ تلاشی کو بہانہ بنا کر آپ کے خیالات کی تلاشی لی جاتی ہے ، آپ کے جذبات کی تلاشی لی جاتی ہے ، آپ کی پسند اور ناپسندگی کو تلاش کیا جارہا ہے ، آپ کی حب الوطنی کے جذبات کو بھی بعض اوقات تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی۔ آپ کے اندر ہمسایوں ، پڑہوسیوں،پرائیوںیا اپنوںکے متعلق کون سے احساسات ہیں کس قسم کی ہمدردیاں ہیں ان کی گہراہیوں کو تلاشنے کی سعی کی جاتی ہے اس طرح جامہ تلاشی ختم ہو جاتی ہے ۔
اپنے نوجوان اکثر بے معنٰی تلاش میں گلیوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں سڑک کے کنارے کنارے گھورتی آنکھوں سے کسی کی تلاش میں محو ہوتے ہیں میں اکثر سوچتا ہوں نوجوان کس کی تلاش میں بے سروسامانی کے عالم میں نکلتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ نوجوان اپنی نوجوانی کو داؤ پر لگانے کی تلاش میں نکل پڑے ہیں اور داؤ لگانے کے لئیے تلاش ہو رہی انفرادی سطح پر انفرادی محبوب کی اس محبوب کی جس کی زلفیں پریشان ہوں ، جس کی آنکھیں بادام چشم ہوں ، جس کی نگاہیں فریبی ہوں ، جس کی چال ہرنی جیسی ہو، جس کے لب پنکھڑی گلاب جیسے ہوں ، جو خود میں تلاش بے بہا ہوں جس سے خود کو پانے کی تلاش ہو اور وہ پانے کا عمل یا پانے کی تلاش عاشق کے ہاتھوں ہی سے مکمل ہو جاتی ہے۔
ہمیں تلاش ہے کار دوجہاں سے خلاصی کی لیکن یہ ناممکن ہے تب تک جب تک نہ ہمیں اپنی تلاش خود تلاش کرے تاکہ ہماری تلاش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مکمل ہو جائے اور ہمیں تلاش کرنے والے کا کام تمام ہو جائے جس کا ہمیں بقید حیات تک انتظار رہے گا اور اس دوران ہماری زندگی یوں گزر جاتی ہے کہ جیسے ایک انبار ہو حسرتوں کو بقول شاعر ؎
میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں کے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں ،وہ ہوا نہیں ، یہ ملا نہیں ، وہ رہا نہیں
(مضمون نگار ڈگری کالج حاجن کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)