تیرادرد نہ جانے کوئے!

 دفتر  میں میرا ساتھی ہم کار مکندہ لالؔ جب اپنے گھر کی بات بتاتا تومجھے بے حد دُکھ ہوتا تھا۔ میں اٹھارہ سال کا الہڑ نوجوان اگرچہ اپنی عمر کے تقاضے کے مطابق اپنی ہی موج مستی میں تھا اور جولانی ٔطبیعت عروج پر تھی مگر مکندہ لالؔ کا معاملہ ایسا تھا کہ مجھے اُس کی بپتا سن کر رنج ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی کھبی آنکھیں روہا نسوں ہو جاتی تھی ، حالانکہ میری عمر اُس وقت جذباتی باتوں کو خاطر میں لانے کی نہیں تھی۔ رُکئے میں آپ کو پوری بات سُنا تا ہوں۔
میٹرک پاس کرنے کے بعد اگلے سال میری نوکری ایک سرکاری دفتر میں لگی مگر پوسٹنگ جموںؔ میں ہوئی۔عمر سے چھوٹا تھا، گھر سے باہر نہیں رہا تھا مگر بہر حال ’’ مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق معاملات آہستہ آہستہ سلجھ گئے۔ رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوگیا، دل بھی لگ گیا اور ’’وٹا ں داشہر‘‘ میں وٹوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ساتھ بھی دوستی ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پریڈ گرائونڈ میں پریڈ کرنے والوں کو چھوڑ کر ڈوگر ے سچ مچ ہی ’’کھنڈ مٹھے‘‘ ہوتے ہیں۔ ہمارا دفتر سابقہ راج محل مبارک منڈی ۔۔۔۔جسے بعد میں اولڈ سیکریٹریٹ نا م ملا… میں واقع تھا، وقت بہر صورت گزرتا رہا۔
میرے ساتھ جموںؔ او ر آس پاس کے علاقوں کے کافی سارے لوگ کام کرتے تھے جن میں مکندؔ لال خاص جموںؔ شہر کا ہی باشندہ تھا اور میرے ہی سیکشن میں میری بائیں طرف اُس کا ٹیبل تھا۔ ہمارے سیکشن میں ایک سراج الدین نام کا بندہ بھی کام کرتا تھا جس کے دونوں کانوں میں مندریاں(بالیاں) پڑیں تھیں ۔یہ دن بھر بیڑی پیتا رہتا تھا او رہلکے سُروں میں ڈوگری گانا گاتا رہتا تھا  ع
لوکومگی تانگ سجنے دی
جب مکندل لال کبھی فرصت میں یا چائے پینے کے دوران یا ایسے ہی بے کار گپ شپ میں اپنے حالات اپنی بیتی اور گھر سے متعلق باتیں بتاتا تو مجھ سچ مچ ہی بڑا دکھ ہوتا تھا ۔ میں مقدور بھر الفاظ میں اُسے تسلی دیا کرتا تھا۔ مکندلالؔ کے ماں باپ گزر گئے تھے، بہن بھائی کوئی نہیں تھا۔ اُس کے گھر میں اُس کی بیوی کے علاوہ دو بچے تھے ، ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔۔۔ لڑکا اندھا تھا اور لڑکی معذور جو ایک ہی جگہ پڑی رہتی تھی اور جس کو پیشاب پاخانہ بھی بستر سے ہی کرانا پڑتا تھا۔ کھلائو تو کھائے نہ کھلائو تو وہ تقاضا نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ مانگنے سے بھی معذور تھی۔ بیوی کے کمر کی ہڈی خراب تھی، اس لئے اُسے دن رات بیلٹ باندھے رہنا پڑتا تھا بصورت دیگر وہ کھڑا ہونے کے قابل نہ تھی اور خود صاحبِ خانہ ہائی پرٹینشن میں مبتلا تھا۔اس صورت حال میں کون ایسا سنگدل ہوگا جو مکندؔ لال کی بات سن اور اُس کا حال جان کر دکھی اور غم زدہ نہ ہو جائے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ آخر اُس نے ایسا کیا کیا ہے۔؟کونسا گناہ کیا ہے جو اتنی ’’سنگین سزا‘‘ اُسے مل رہی ہے۔ اُس کا معصوم چہرہ، نرم ونازک بااخلاق لب و لہجہ، دل پسند ادائیں دیکھ کر قدرت کی دین کے خلاف ایک دبادباسا سوال نما غصہ اُبھر آتا تھا اور آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ مالک کائنات کی بے نیازی بھی ستم ظریفانہ ہوتی ہے مگر کیا کیا جاسکتا ہے ،ایسی باتوں کا مداوا انسانی حد اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ میرے دل میں اس بات کا بڑا قلق تھا کہ آخر اُس بے چارے کو اتنی بڑی سزا کیوںملی ہے جب کہ اس کے کردار میں ظاہر ا طور پر کوئی بھی بری بات یا عادت نظر نہیں آرہی تھی۔
ایک دن میری سطحی سوچ اور مکندلال کے مخفی گھناؤنے کردار کا راز کھل ہی گیا۔ مجھے سرینگر ہیڈ آفس میں کچھ کاغذات کو قرینے سے رکھ کر اُن کی فہرست تیار کر رہا تھا اور ذرا دوری پر مکندلالؔ تین اور ساتھیوں کے ساتھ چاے پی رہا تھا اور گپ شپ میں مصروف تھا۔ وہ لوگ ڈوگری زبان میں بات کر رہے تھے ۔ اگر چہ میں اُن کی باتیں سمجھ سکتا تھا مگر میرا دھیان اُن کی طرف نہیں تھا۔ جب’’ ہا تو‘‘ کا لفظ مکند لال ؔ کی زبان سے ادا ہوا تو میں چوکنا ہوگیا۔ ظاہرا طو رپر میں کام کے ساتھ پوری طرح منہمک تھا مگر تجسس کی خاطر اُن کی باتیں سُننے لگا اور اُن لوگوں کو اس بات کا شبہ ہونے نہیں دیا۔ مجھے لگا باقی تین اپنی سفاکی جو اُن کی نظروں میں بہادری تھی ،سُنا چکے ہیں جو یقینا سن1947ء کے دلدوز خونین واقعات سے متعلق تھی ،تو میں نے مکندلالؔ کو کہتے سنا۔ ’’آہو۔ ہاں۔ہاں بالکل اُسی جگہ مست ؔ گڑھ میں جہاں مسجد ہوا کرتی تھی اور اب اُس میں ………خیر جانے دو اُس بات کو ۔ ہم نے چار کشمیری’’ ہاتو‘‘ ( مزدور) کو گھیر لیا اور آناً فاناً میں اُن سب کا قصاء( ذبح) کر دیا۔ اُن میں سے ایک پیٹ پکڑ ے تھوڑی دُور تک بھاگا تھا اور شاید وہ نکل جاتا مگر تلوار کے ایک اور وار سے وہ بھی سٹک گیا۔
اُس کے بعد کیا کرتا، کیا سُنتا،کچھ سُننےپارہ نہ تھا۔ کانوں کی لویں تپنے لگیں اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں۔ گلاخشک ہوگیا…… میرے تصور میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے چار کشمیری دیہاتی مزدوروںکی معصو م صورتیں گھومنے لگیں جو بڑی چاہ کے ساتھ وادی سے سردی کے ایام شروع ہوتے ہی میدانوں کی طرف آذوقہ کمانے نکل جایاکرتے تھے۔ کڑی سے کڑی محنت کرتے تھے تاکہ کچھ نمک چائے اور ہلدی کما کر لاسکیں اور اُن کے پیچھے گھاس پھونس کے گھروں میں اُن کی مفلوک الحال عورتیں بغیر قمیض کے خالی ایک فرن میں زمستان کی یخ بستہ کالی لمبی راتیں چرخہ کاتتے کاٹتیںاور لمحہ لمحہ گن کر بہار کے ابتدائی پھولوں کے پھوٹتے ہی نمک ہلدی اور چائے کے بوجھ سے خمیدہ کمر اپنے ماہیوں کی راہ دیکھتی رہتی تھیں۔ بہار آئی اور گزر گئی،پھر کئی بہار یں آئیں اور گرمیوں کی نذر ہوگئیں مگر وہ کبھی لوٹ کر نہ آئے ،صرف انتظار بھری آنکھیں ہی ترستی رہ گئیں… پتھرا گئیں……
میرے ہوش جب ذرا سنبھلے تو میں دل ہی دل میں اپنے گُستاخانہ سوچ پر اپنے ضمیر سے معافی مانگنے لگا۔ سزائیں حشر کے بعد تو ملنی ہی ملنی ہیں مگر برے افعال کا خمیازہ دنیا میں بھی اسی مختصر اور ناپائیدار زندگی میں بھی اُٹھانا پڑتی ہیں۔ سچ ہے وہاں دیر ہے اندھیر بالکل نہیں۔کہتے ہیں اب بھی جب برف پگھلنے لگتی ہے تو پیر پنچال کی اونچی پہاڑیوں کی طرف سے پرندوں کا ایک غول آکر کھیتوں کی منڈیروں پر بیٹھ کر کچھ دیر تک آنسو بہاکر ان جانی دِشائوں کی جانب پرواز کرکے غائب ہو جاتا ہے ؎
سوگئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگذر
اجنبی خاک نے دھند لادئے قدموں کے سراغ
گُل کر و شمعیں بڑھا دومئے ومیناوایاغ
اپنے بے خواب کو اڑوں کو مقفل ۔۔۔کرلو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
(فیضؔ)
رابطہ:-پوسٹ باکس :691جی پی او  رینگر-190001،کشمیر
 موبائل نمبر:-9419475995