تہذبیوں کا ٹکرائو…نئے میدان اور نئے حربے

پندرہ مارچ کا دن پوری دنیا کے انسانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے والا دن تھا ۔ اس دن دنیا کے سب سے محفوظ ، سب سے پرامن اور خوشحال ملک میں دہشت گردی کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے دہشت گردی کی ایک نئی وسعت اورایک نئے پھیلائو کے احساس سے اس دور کے انسانوں کو روشناس کیا۔ گو کہ یہ انسانی تاریخ کا پہلا ایساہولناک واقعہ نہیں تھا۔بیسویں صدی کے جاتے جاتے دہشت گردی کے بہت سارے واقعات رونما ہوئے جن میں سب سے بڑا اور ہولناک واقعہ امریکہ کے عالمی تجارتی مرکز جڑواں ٹاورز کی بربادی کا تھاجس میں پانچ ہزار سے زیاد ہ لوگ مارے گئے تھے لیکن اس واقعہ کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی ۔اندازوں کی بنیاد پر اسے اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ سے منسوب کیا گیا۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ میں حملہ آور نے سرپر کیمرا لگا رکھا تھا اور فیس بک پر وہ اس خونریزی کا سارا حال دنیا کو دکھا رہا تھا ۔ اس نے نہ اپنے آپ کو چھپایا اور نہ ہی اپنے مقاصد کو ۔ مسجد میں گھس کر اس نے جمعہ کی نماز میں مصروف مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں برسا ئیںاور عبادت گاہ کو انسانی خون سے نہلا دیا ۔ جو سجدے میں تھا ،سجدے سے نہ اٹھ سکا اور جو رکوع میں تھا، رکوع میں ہی رہا ۔ یہ اس شخص کا ایک قوم کیخلاف اعلان جنگ تھا لیکن ایسی ٹھوس شہادتیں موجود ہیں جو زبان حال سے ظاہر کررہی ہیں کہ یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ ، ایک جذبے،ایک رحجان اور ایک پنپتے ہوئے نظرئیے کا اعلان جنگ تھا ۔
 یورپ میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے او ر یہ اپنے اندر انسانوں کی موجودہ نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لئے بھی سنگین ترین خطرات رکھتا ہے ۔امریکہ کے نائن الیون حملے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کااعلان کردیا اور اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ فوجیں افغانستان روانہ کردیں ۔ تب سے اب تک یہ جنگ کسی نتیجے کے بغیر برابر جاری ہے ۔ اس جنگ کا دلچسپ اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوتوں کی سات سالہ سر توڑ کوششوں ، تمام قوت اور وسائل کو استعمال کرنے کے باوجود بھی اس دشمن کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا جسے دہشت گرد قرار دیکر بیخ و بن سے اکھاڑنے کیلئے فوجیں بھیج دی گئی تھیںاور انجام کار اس مہم جوئی سے جان چھڑانے کیلئے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کردی گئی۔
امریکہ کی ناکامی یا کامیابی سے قطع نظر اس نے اپنے ملک میں ایک حملے کیخلاف عالمی سطح پر دہشت گردی کیخلاف جنگ چھیڑ دی اوراس میں تمام دنیا کو شامل کرلیا لیکن نیوزی لینڈ کس کیخلاف جنگ چھیڑ دے گا اوراس کا ساتھ اس جنگ میں کون دے گا ۔اس ملک میں دہشت گردانہ حملہ کرنے والا ایک سفید فام تھا اور جن پر حملہ کیا گیا وہ مسلمان تھے اور یہی وہ قوم ہے جو دنیامیں دہشت گردی کے الزام کا حدف ہے ۔ نیوزی لینڈ حملے کی جو سب سے اہم اور غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گرد کے ہاتھ میں جو مشین گن تھی اور جس سے اس نے نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، اس پر کئی ایسے مقامات کے نام لکھے گئے تھے جہاں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے شکستیں کھائی ہیں اور کئی جرنیلوں کے نام بھی تھے جن کے ہاتھوں عثمانی فوجوں کو شکست ہوئی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ وقتی طور پر جنون میں مبتلا نوجوان نہیں تھا بلکہ وہ تہذیبی جنگوںکا بھرپور مطالعہ کرکے اس کے احیائے نو کا مصمم ارادہ لیکر النور مسجد میں گھس گیا تھا۔
گو کہ پورے یورپ میں اس حملے کی بھرپور مذمت ہوئی اور نیوزی لینڈ نے اس ذہنیت کا جواب پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کا آغاز قرآن شریف کی تلاوت کرکے دیا۔یہ اس بات کااعلان تھا کہ اس سرزمین پر ماضی کو دہرانے نہیں دیا جائے گا ۔النور مسجد کے امام صاحب کا واقعہ کے بعد جو ردعمل تھا وہ بھی نہ صرف اپنی مثال آپ تھا بلکہ اسلام کے نظریہ حیات کی حقیقی تشریح بھی تھا تاہم اس کے باوجود بھی یہ بات اپنی جگہ ہے کہ یورپ میں ایسی شدت پسندانہ سوچ بڑی تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہے جو اسلام اورمسلمانوں کیخلاف گھناونے عزائم رکھتی ہے۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ ناین الیون کے بعد ہی یہ سوچ ابھری ۔ اسی سوچ نے ڈونالڈ ٹرمپ کو اتنا عروج بخشا کہ وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔اسلامو فوبیا اسی سوچ کی پیدا وار ہے جو النور مسجد کے خونین سانحے تک پہنچی ۔
اگر ماضی کے کئی بڑے حادثات اورعالمی واقعات سے صرف نظر کیا جائے تو تاریخ کا کوئی طالب علم چاہنے کے باوجود بھی اس بات کو رد نہیں کرسکتا کہ انتہا پسندی کی سوچ کو مسلم سماجوں میں بیسویں صدی کے اواخر میں فروغ ملا۔افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد اس جنگ کے دوران ابھرنے والے کئی گروہ ایک عالمی ایجنڈے کے ساتھ متحرک ہوئے جنہوں نے فدائی حملوں کو جائز طریقہ کار کے طور پر اختیار کیا ۔ان قوتوں کو جہادی قوتیںقرار دیا گیا۔ اس طرح سے ان کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔مسلم دانشوروں اور علماء کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس کی تائید و حمایت کی اور اسے دنیا میں اسلام کی سربلندی قائم کرنے کی مسلح مہم قرار دیا گیا ۔ دنیا کی تمام بڑی فوجی طاقتوں کیخلاف اس جنگ کا محاذ کھول دیا گیا اور جب دنیا بھر میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں ہوگیاحالانکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے تھے لیکن انہیں کسی نے دہشت گرد قرار نہیں دیا ان کے پاس ہتھیار اٹھانے کا معقول اور معتبر جواز تھا ۔ 
پہلی بار ایک شہری جہاز اغوا کرنے والی لڑکی لیلیٰ خالد تھی جو فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی تنظیم الفتح کی رکن تھی ۔الفتح بھی ایک مسلح تنظیم تھی لیکن اس پر دہشت گردی کا کوئی لیبل چسپاں نہیں ہوسکا اور نہ ہی دنیا کی کسی قوم اور ملک میں اس کا مخالف ردعمل ہوا ۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان کو سوویت یونین کی قبر بنانے کیلئے اس جنگ میں اسلام اور جہاد کا استعمال کیا ۔مذہبی جماعتیں اس جنگ میں پورے طور پر جہاد کی تبلیغ کے ساتھ ملوث ہوئیں اور سوویت یونین کے خاتمے تک جو طوفان برپا ہوا تھا ،اسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ امریکہ نے ان تنظیموں اور گروہوں سے منہ پھیر لیا تو ان کا حدف امریکہ ہی بن گیا ۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی طاقت کے سارے قلعے مسمار ہوئے ۔ افغانستان خانہ جنگی کا اکھاڑہ بن گیا ۔ عراق ، لیبیا اور شام کی بربادی ہوئی اور دنیا بھر کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہونے لگی اور اب یورپ میں تہذیبی ٹکراو کی جو سوچ پیدا ہورہی ہے وہ مسلمانوں کے لئے کونسی آفتیں نازل کریں گے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ اگر خود مسلمان ہی اس حالت کو تبدیل کرنے کے لئے متحرک نہیں ہوئے تو اس کا انہیں ہی سب سے زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ اس وقت کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جو سیاسی اور فوجی اعتبار سے اتنا مضبوط ہو کہ بڑی قوتیں اسکا کوئی خوف محسوس کرسکے ۔
نیوزی لینڈ سانحہ یورپ کے لئے بھی ایک تازیانہ عبرت ہے ۔ مسلمانوں کیخلاف دہشت گردانہ سوچ اگر اسی تیزی کے ساتھ فروغ پانے لگی جس تیزی کے ساتھ اس وقت فروغ پارہی ہے تو یورپ خونریزیوں میں ڈوب جائے گا ۔اس کی ساری توجہ خونریزیوں پر ہی مرکوز ہوجائے گی جس کے نتیجے میں عظمتوں کے تاج اس کے سر سے اتر جائیں گے ۔پھر کوئی اور قوم ان کی حقدار بن جائے گی ۔مسلمانوں کو بھی اپنے حالات پر سوچنا پڑے گا اور ان کے مخالفوں کو بھی ۔
 ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر