انوکھے حالات ہیں ہر طرف حسرتوں کی یلغار ہے۔ٹمٹما رہے چراغ امیدوں کے،امڈ رہے ہیں طوفان آرزؤں کے،آز مائشوں کا زور ہے،ابتلاؤں کا دور ہے،صبر کی قبائیں چاک ہیں،کشمکش ہے ،تنزل ہے۔ حیرانی ہے،سکون قلب کی دیواریں گر رہی ہیں۔جگر کباب ہو رہے ہیں،عشق و عقل کو نئی تہذیب کا معرکہ نیم جان کررہا ہے۔قوم کے نو نہال خرافات کی تیزاب میں جھلس رہے ہیں،بنت حوا کی زندگی کا سفر ہر گذرتے لمحے کے ساتھ وبال جان بن گیا ہے۔اتنا بڑا زیاں وہ بھی اخلاقی اقدار اور انسانی کردار کا سیل تنزل ہے کہ رکتا نہیں، مگر ہم ہیں کی اب بھی امام مہدی کے انتظار میں !
لگتا ہے کہ گھوم پھیر کے وہی زمانہ پلٹ آیا ہے، جس زمانے میں بیٹی کو زندہ در گور کرنا عزت کا معیار تھا۔ قحبہ گری ایک مشغلہ تھا،جوا بازی اور شراب نوشی اس زمانے کے معاشرے کی روح تھی ،خون ریزی اور غارتگری بہادری کے نشان تھے۔ زن مریدی نشان غیرت تھی۔رقص و سرود ایک منزل تھی۔حق و باطل آپس میں شیر و شکر ہو چکے تھے۔بے راہ روی کی ایک طغیانی تھی،عیاشی کا دور دورہ تھا،اللہ?کی زمین پر گناہوں کے گھنے بادلوں کی چادر لپٹ چکی تھی۔
دور جدید بدلے ہوئے انداز میں کچھ اُسی دور کی غمازی کرہا ہے۔اسی لئےعلامہ اقبال نے کہا تھا۔ ؎
فراغت دے اسے کار جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہ تازہ تر لائیںکہاں سے
ہم اپنے گردنواح میں بہ انداز احسن اور بغور انسانی معاشرے کے شب و روز خد وخال، نشست و برخاست اور فکر و عمل کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں تو سوا?ئےحزن و ملال کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ غفلت ادھر بھی ہے تو ادھر بھی۔رہبر ہی اگر رہزن بن جائیں، امین ہی اگر خائن بن جائیں، قاعد ہی اگر بھٹک جائیں اور امام ہی اگر کھو جائیں تو پھر ہماری اس نونہال پود کےمستقبل کے سورج سے تنزل کا گہن کب ہٹے گا؟وفا شعاری کا تقاضا ہے کہ تغافل اور تساہل کے بھنور سے نکل کر ذمہ داری کی مشعلوں کو روشن کیا جائے کیوں اس لئے کہ ؎
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
وقت آگیا ہے کہ نئی نسل کی فطری صلاحیتوں کو اخلاقی سانچے میں ڈھالنے کے لئے والدین اپنی آنکھوں سے مادہ پرستی کی عینک کو اتار پھنکیں۔ہمارے نوجوانوں کے سینوں میں ایک عجب اضطراب ہے کیونکہ انکی روحانی غذا کی ضیافت کا نہ انتظام ہے نہ فکر ہے۔
صانع کائینات نے اپنی تخلیق کے اس شاہکار کو خلیفتہ الارض کے عظیم منصب سے نوازا مگر نفس کی شرارتوں اور اللہ?کی وحدانیت پر عدم یقین کی شامت بد نے اسے کینہ پرور اور سفلہ مزاجی میں پختہ تر بنا دیا اور کوششوں کے باوجود سماجی برا ئیاں ہمارے دل و دماغ کی سلطنتوں کو آہنی گرفت میں لے رہیں ہیں،اسکی آخر وجوہات کیا ہیں۔شاید کہیں ہمارے قول و فعل میں تضاد تو نہیں !اور شاید اسی لئےعلامہ اقبال دل برداشتہ ہو?ئےتو زباں پہ بے ساختہ آیا۔ ؎
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا
اس خرقہ سالوس میں چھپا ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
نقد منافع کے مقابلے میں خلوص اگر مقدم نہ رہے تو ہمارے پند و نصائح صدا بہ صحرا ثابت ہونگے۔آج ہمارے ہر عمل میں نفاق ہے۔جس گھر کی بینائی ٹی۔وی۔سکرین کی نذر ہو رہی ہو یا موبائل پے پھیلائی جانے والی فحاشی نے جس رہبر کے اوقات زندگی کو نگل ڈالا ہو، اسکی نصیحت سے اسکی کمسن اولاد اور بھی زیادہ بگڑ جاتی ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی۔آج ہمارے معاشرے میں مساجد و مدارس اور معلمین کی قلعت نہیں ،اسکے باوجود حیا سوز او ننگ انسانیت واقعات میں روز افزؤں اضاف ہو رہا ہے۔کہیں اگر کوئی برائی سے بچتی بھی ہے تو مخلوق کے خوف سے اور اب ایسی سعید ارواح کی بہت کم تعداد بچی ہے، جسے خالق کا خوف اور اپنی زندگی کے محاسبے کا یقین ہے۔ورنہ وہ کیا راز تھا کہ ساری دنیا جور و جفا کی گھٹا ٹوپ اور قہر انگیز بے شرمی کی تاریکی میں بھٹک رہی تھی اور شمع رسالت کے چراغ نے تن تنہا باطل کے وجود کو کے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے۔وقت آگیا ہے ،والدین اپنے منصب کو سنبھالیں یہ انکی ذمہ داری بھی ہے اور مجبوری بھی۔فرقان حمید کا واشگاف اعلانیہ ہے:
’’یا ایھا الذین آمنو قو انفسکم و اھلیکم نارا‘‘۔اولاد کی اولین تربیت کے اولین مخاطب والدین ہیں اور اسکے برعکس والدین کہیں مولوی اور کہیں سرکاری مدرس کی تنخواہ گن گر تنقید کی بجا آوری میں راہ فرار تلاش کرتے ہیں۔
یاد رکھئے!فرار ایک ایسا جرم ہے جسکی سزا بہت سنگین ہے یارو۔ اپنی اولا کی خیر چاہتے ہو تو ابراہیمی کردار پیدا کرو کہ اسماعیل ایسے نصیب نہیں ہوتے۔اپنی اصلاح کرو۔آج ہم سب کچھ جانتے ہیں مگر اسلامی کی روح سے بیگانہ اور تعلیمات سے تہی دامن۔دنیا کا ہر مذہب اولاد کی تربیت کا سہرا والدین کے سر باندھتا ہے اور ہر مذہب اپنی اصلی حالت میں انسانی فلاح کا ضامن ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو مہاتما گاندھی جی یہ نہ فرماتے کہ قرآن اور گیتا میری دو آنکھیں ہیں۔جی مذہب یہی درس دیتا ہے۔دینی تعلیمات سے نا آشنائی ایک المیہ ہے۔
آج والدین ہر جائز و نا جائز طریقے سے اپنی اولاد کی رائج الوقت ضروریات کے حصول میں دیوانہ وار سرگرداں ہیں اور فی الحال موبائل فون کی فراہمی شفقت پدری کا نشان ہے مگر کیا معلوم کہ ہماری اولاد وقت سے پہلے بلوغت کے دام میں پھنس رہی ہے۔یہ مرض ادھر بھی ہے تو ادھر بھی۔چلئے?اگر ہماری اولاد ہر روز شام ہوتے ہی فون بند کر کے ہمارے حوالے کر دیتی ہے تو ہمیں انکی معصومیت پر بھروسہ آسکتا ہے ورنہ سال بھر کی شب بیداری ہر دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ماں باپ کو گردن جھکانے اور قیمت چکانے کے لئے مجبور کر دیتی ہے۔والدین کی بے حسی ہے کہ ہر گھر ایک اجڑا ہوا دیار،ایک غمکدہ اور ایک فحاشی کے نگار خانہ کی تصویر پیش کر رہا۔جب صورتحا ل اتنی الجھی ہوئی ہے تو عزت کی تھیلی میں باقی بچتا ہی کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتشار کی اس باد سموم سے نجات کے لئےوالدین اپنے منصب کو اس سے پہلے ہی سنبھالیں کہ پھر موقعہ ہی نہ ملے۔ہماری یہی تڑپ ہے ،آرزو ہے، تمنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
نیل چدوس تحصیل بانہال ضلع رام بن
فون نمبر 8493990216