پچھلے کچھ عرصہ سے اخبارات میں پھر ایک بار نجی تعلیمی اداروں کی خر مستیاں شہ سرخیوں میں ہیں۔ خاص طور ان کی بھاری بھرکم فیسیں،غیر ضروری کتابوں کے بستے بڑھانے کی ترکیبیںاور دیگر لایعنی تعلیمی اخراجات کا بوجھ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ پرائیوٹ تعلیم گاہوں کی یہ چیزیں کسی تعلیمی مقصد کی آبیاری کے بجائے طلبہ وطالبات کے والدین کاخون چوسنے اور ان کا استحصال کر نے کے حسین بہانے ہوتے ہیں اور بس ۔عوام کو نبالخصوص شکایت ہے کہ نجی تعلیم گاہیں سٹوڈنٹ کمیونٹی کو ذہناً رُوبہ ترقی کر نے پر سوچنے کے بجائے زیادہ تر والدین کی جیبیں کاٹنے کے لئے فکر مند رہتی ہیں ۔ یہ ادارے وقتاًفوقتاً محض اپنی آمدنی بڑھانے اور دلالیاں کھانے کے لئے بچوں کے واسطے بیک جنبش قلم بعض غیر ضروری چیزوں کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ دوسری اہم شکایت فیس سے متعلق ہے ۔اس کے لئے سرکار نے ایک گائیڈ لائن پہلے ہی سے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے لئے مقرر کر رکھی ہے لیکن سرکار کیا اور سرکاری احکامات کی اثر پذیری کیا؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکار نجی اسکولوں سے تباہ کن سیلابی صورت حا ل کے پس منظر میںفیس معاف ہونے کے معاملے میں ہائی کورٹ کے حکم نامے پر بھی عمل در آمدنہیں کروا سکی کجا کہ ان سے کسی بڑے اصلاح کی توقع کی جائے ۔ سیلاب ِ کشمیر کا نوٹس لے کر مجاز عدالت نے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق فیصلہ دیا تھا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں کے طلبہ وطالبات کی فیس معاف واجب الوصول نہیں ہوںگی لیکن اکثر نجی تعلیمی اداروں نے اس فیصلے کو ناقابل ا عتناء سمجھ کر بچوں اور بچیوں سے ایک یا دوسرے بہانے معاف شدہ فیس وصول کر ہی دم لیا۔ سرکار دو ہزار سولہ کی چھ ماہ طویل مسلسل ہڑتال کے دوران تعلیمی اادروں کی بندش کے باوجود بھی نجی تعلیمی اداروں کو فیس اور ٹرانسپورٹ چارجز میں کوئی کمی لانے پر آمادہ نہیں کر سکی ۔ وقت کے منسٹر ایجو کیشن نعیم اختر صاحب نے اُس وقت نجی اداروں کے اس فیصلے پر کہ ماس پرموشن دی جائے ،زبردست برہم ہوکر یہ تک کہا تھا کہ نجی تعلیمی ادارے ہمیں پالسیاں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے لیکن دو دن بعد نجی اداروں کا فیصلہ عملانے کی سرکاری ہدایات جاری ہوئیں جب کہ فیس اور دوسری گائیڈ لائینز کا اس کہانی میں کہیںکوئی تذکرہ ہی نہ تھا ۔ یہ سرکار کی ڈانواں ڈول تعلیمی پالیسیاں ہیں ا ور یہ نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ اس کے معاملات کی کھلی تصویر ہے ۔ اس بارے میں شایدیہ کہنا خلافِ حقیقت نہ ہوگا کہ ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
گزشتہ بیس بائیس سے دیکھتے رہے ہیں کہ اکثر و بیشتر ہمارے ایجوکیشن منسٹر اور نجی اداروں کے کرتا دھرتا بشمول دیگر سرکاری عہدے دار اسکولی تقاریب کے بہانے ایک ہی سٹیج پر مہمان خصوصی ہوتے ہیںجہاں وہ ا یک دوسرے کی قصیدہ گوئی کر تے ہوئے من تُرا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کا اعادہ کرتے ہیں ۔ کسی وزیر تعلیم کا تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ قریبی را بطہ ہونا قابل فہم ہے مگر ان رابطوں کا مقصد ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ تعلیمی ادارے اپنی پر فارمنس کو بہتر بنائیں، طلبہ کو بہترین سہولیات میسرہوں اور تعلیمی وتدریس کے جملہ مسائل حل ہوں۔ اس کے بجائے پرائیوٹ اداروں کے مالکان وزراء ا ور دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے مراسم بڑھا تے ہیں تاکہ ا پنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالیں ا ور اپنی نابکاریوں کو چھپائیں ۔ حالانکہ عوام خاص کرچیختے چلّا تے رہتے ہیں کہ نجی تعلیمی ادارے انہیں لوٹ رہے ہیں مگر اُن کی سنے گا کون ؟ اور اصلاح ِ احوال کر ے گاکون ؟
کسی بھی قوم کا شعبہ ٔ تعلیم تہذیبِ فکر کا ماخذ اور ذہنی واخلاقی سربلندی کے سر چشمہ ہوا کر تاہے ۔ یہاں ہمارے تعلیمی شعبے کا آوے کا آوا ہی بغراہوا ہے۔ پہلے یہاں کے سرکاری تعلیمی ادارے عدم فعالیت کے نرغے میں آکر سوکھ گئے کہ اب ان چشموں سے خال خال بھی کوئی عبقری شخصیت برآمد نہیںہوتی ۔ اب حال یہ ہے کہ ان اداروں میں تعلیم وتعلم کے دریا بہنا تو دور کوئی آب ِجو بھی ہمیں نظرنہیں آتی ۔ اس کے بجائے نجی اداروں نے پہلے پہل ایک اچھا متباد ل ہونے کا صحت مند تاثر جمایا مگر اب یہ سماجی بگاڑ اور اندھی مادی ودڑ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اتنےover کمراشیلائز ہوئے ہیں کہ ان میں عرصے سے بڑی بڑی فیسیں ، وزن دار مگر غیر ضروری کتابیں، یونیفارم اور یہ فنڈ وہ فنڈکا دھندا خوب چلتا ہے جب کہ تعلیم وتدریس ندارد ہے ۔ ان کے غیر ضروری بھاری اخراجات اور چونچلے تعلیمی سسٹم کے لازمی اجزاء کی موجودگی میں والدین کے پاس بجز اس کے کوئی اور آپشن نہیں کہ ان کے مطالباتِ زر کے سامنے مکمل سرینڈر کریں۔ اگر انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دین مقصودہو تو چپ چاپ ہر ستم کو سہنا ان کے لئے ناگریز ہوگا، ورنہ اسکول انتظامیہ سے لڑ بھڑ کر آخر کار ایجوکیشن مافیا انہیںاپنے خود غرضانہ سسٹم کے فولادی پہیوں کے نچے کچل دیں گے اور ان کے بچوں کا تعلیمی کیر ئر بھی داؤ پر لگے گا۔
بے شک کشمیری عوام تعلیم وتدریس کی اہمیت سے روشناس ہوچکے ہیں ۔ یہ ایک بہت ہی قابل ستائش بات ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام کسی قابل قدرمعیار سے آشنا ہی نہیں جو زمانے کے تقاضوں سے ہم قدم ہو کر چلے ۔ اگر اس نظام کا یہی حال برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب ساٹھ سال پہلے کی طرح ہمیں ایک خط پڑھوانے کے لئے بھی کسی پنڈت کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہمارے اندر جاگرتی اور تعلیم سے اس قدر شغف اور پیار مثبت اور صحت مند علامت ہے لیکن افسوس کہ تعلیمی مافیا کی تاجرانہ ذہنیت اس شعبے میں ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔ یہ صورت حال ہمارے تعلیمی مریضانہ نظام اور تدریسی ڈھانچے کو مزیدپسماندہ ذہنیت کے پیچھے چلارہی ہے ۔ آپ ایک سادہ اور آسان سوال ماضی کے تعلیم یافتہ والدین سے پوچھئے کہ تیس چالیس برس پیش تر جن پرائمری ، مڈل اور ہائی ا سکولوں سے ہماری کھیپ فارغ التحصیل ہوکر نکلتی ،اُن کی ذہنی صلاحیتوں کی کیا قدر وقیمت ہوتی ؟ اسکولی نظام کا انفرا سٹرکچر کیا تھا ؟ کس قسم کی تعلیمی ایکٹیوٹیز ہوتی تھیں ؟ اوریہ کونساجاد وتھا کہ ان اسکولوں کے پروردہ طلبہ و طالبات مختلف ڈیپارٹمنٹوں میں بہترین آفیسر ثابت ہوئے ، یہی لوگ عظیم سائنٹسٹ بنے، مقامی ا ورعالمی طور پر جانے مانے ڈاکٹر اور انجینئر یہیںکہلائے ؟ بلکہ آپ کے اورمیرے آس پاس ابھی تک جو علمی ،ادبی اور پروقارقابل احترام شخصیات موجودہیں اور جو ہمارے یہاں مختلف شعبوںکے آفتاب و ماہتاب ہیں، یہ سب اسی دور کی پیداوار ہیں ، ان ہی مدرسوں میں یہ ڈھل کر میدان ِ عمل میں آئے اور سماج کو کچھ دے گئے ۔ کیا بات تھی اُن اداروں میں ؟ کچی پکی عمارتیں ، ٹوٹی پھوٹی دیواریں،مٹی کا فرش ، خستہ وبوسیدہ کٹے پھٹے ٹاٹ اور ان پر ہم سب کس چاؤ سے بیٹھا کرتے تھے ۔ سہولت نام کی کوئی چیز ان مدارس میں نہیں ہوتی تھی لیکن جو جذبہ، سادگی، کچھ اچھاکر نے کی چاہ اور اُمنگ، اور جو خلوص و للہیت تب معلمین اور متعلمین میں تھی، وہ بیش بہادولت کسی نجی یا سرکاری اسکول میں اب کہیں نظر آتی ہے ؟ ان ایام میںبس ایک استاد ، اس کی پڑھائی لکھائی سے بے لوث لگن ، اپنے مقدس پیشے سے دلی وابستگی ہوتی تھی جو تعلیم و تددیس میں روح پھونکتی کہ طلبہ ہونہار وباصلاحیت بھی ہوتے اور اخلاق و اطوار کے اونچے معیار کو بھی چھوتے ۔ یہی چیزیں اُن کچی ٹوٹی پھوٹی چاردیواریوں کو دانش گاہ کا درجہ عطا کرتی تھیں ۔ اُن بے جان اور بے رنگ و روغن دیواروں سے نیک جذبات اور اونچے آدرشوں کی مہک آتی تھی اور ایک تعلیم یافتہ اور مہذب کھیپ ان تعلیم گاہوں سے باہر آکر سماج کا فلاح وبہبود کے لئے کمر بستہ ہوتی ۔ اب اس زمانے میں جدید ترین تعلیم وتدریسی مشین کے سب کل پُر زے موجود ہیںلیکن نہ کہیں وہ استاد نظر آرہا ہے ، نہ اس کی لگن اور جذبہ نظر آرہا ہے اور نہ تعلیمی اداروں سے معاشرے کو بہترین انسانی مواد فراہم ہونے کی اُمید برآتی ہے ۔ آپ کو جابجا کھڑی بڑی بڑی پختہ عمارتوں، خوبصورت رنگ و روغن سے مزین کلاس روموں ، کتب کانوں اور تجربہ گاہوں ، موٹی موٹی تنخواہ لینے والے تدریسی وغیر تدریسی عملے ، جدید الیکٹرانک سسٹم سے مر بوط سہولیات کی موجودگی میں کہیں تعلیم و تربیت کا درست نظام نظر آتا ہے ؟ سوائے ان چونچلوں کے جس کے لئے قدم قدم پر والدین کی رگوں سے لہو کے آخری قطرے تک نچوڈنے کے سارے بندوبست موجود ہیں، ہمارا نظام تعلیم ناکام ونامرادہے ۔اس بیمار ذہن نظام کو سدھارنے سنوارنے کی کسی کو چٹی نہیں پڑی ہے۔ سچ پوچھئے اسی لئے اکثر نادار والدین نام نہاد نجی تعلیمی اداروں کے یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔وہ سب کچھ دیکھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے بچوں کی تعلیم کے نام پر کیا دُرگت ہوتی ہے، وہ اسے صاف محسوس بھی کرتے ہیں ، سمجھتے بوجھتے بھی ہیں لیکن ان کے پاس یہ سارا درد سہنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں، لہٰذا خاموشی کاقفل زبان پر ڈالے رہتے ہیں ۔ چاہے وہ بے بسی کے عالم میںپر نم آنکھوں سے آسماں کی طرف ٹکٹکی لگا کر بھی دیکھیں ،لیکن ان کے درد کا مداوا کہیں سے نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہمارا معاشرہ سارے کا سارا کرپشن کے بحر مردارمیں ڈبکیاں ماررہا ہے۔ اس وجہ سے نہ کوئی سرکاری ذمہ دار یا عہدے دار کسی مظلوم کی فریاد سنتا ہے اور نہ ہی کوئی داد رسی کرتا ہے ۔
ہمارے تعلیمی منادر کے دیوتا اور پجاری محض اخباری بیانات کے طومار باندھ کر اپنا دھندا چلاتے ہیں ، جب کہ تمام نجی ادارے ایک نقطے پر مرتکز ہیںکہ ایساطریق کار اختیار کرو کہ سرکار ان کے لئے کوئی بھی گائیڈ لائن جاری کرے اُسے ردی کی ٹوکری میں ڈالو ۔ فیس میں ، ٹیکسٹ بک میں ، یونیفارم میںہر چیز میں اپنی من مانی کرو۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ اسکول کسی ایک دن کے شو کے لئے بھی ایک الگ یونیفارم لازمی قرار دیتے ہیں ۔شو اسکول کا اپنا ایونٹ ہوتا ہے، یہ سکول کی اپنی ایکٹیوٹی ہوتی ہے ۔ اس شو میںسکول مالک کی طرف سے منسٹر یا ڈائریکٹر کو دعوت ِشاہانہ بھی دی جاتی ہے لیکن یونیفارم سے لے کردعوت اور باقی اخراجات تک کا سارا خرچہ بھی والدین کی رگوں سے نچوڑا جاتا ہے ۔ افسوس کہ ایسی تقریبوں میں منسٹر صاحب کھل کر سرکاری اداروں کے ناقص ہونے کا اقرار دبے الفاظ میں کرتے ہوئے عوام کو نجی ادارو کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ جب کہ ابھی دیہات اور دور افتادہ خطوں میں سرکاری پرائمری، مڈل اور ہائی سکول نجی اداروں سے بہتر تعلیم امپارٹ کر رہے ہیں۔ یہ صلاح ان غریبوں کے خلاف ایک صریحی ظلم ہے ۔ راقم نے ابھی چند روز پہلے ایک نجی ادارے کے ٹیکسٹ بک کا ہلکا سا معائینہ کیا ، اس کی نصابی کتابیں دیکھیں تو حیران وششدر رہ گیا کہ تیسری جماعت کے بچوں کے لئے پندرہ سے بھی زیادہ کتب لازمی قرار پاتی ہیں اور ان کتابوں کی مجموعی قیمت ساڑھے تین ہزار روپیہ ہے جب کہ پانچویں چھٹی اور آگے کی کلاسز کا خدا ہی حافظ ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہتیسری جماعت کی ایک چھوٹے سے ننھے منے بچے کو پندرہ سولہ کتابوں کا کرنا کیا ہے ؟ یہ سکول والے ان کتابوں کو پڑھاتے کب ہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ نجی سکولوں نے علم کو کوٹ کوٹ کر چائے قہوے میں گھول گھول کر پلانے کا کوئی نسخہ ایجاد کیا ہو ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آخر دسویں جماعت کا امتحان سب بچوں اور بچیوں کو اسی بورڈ کے جھنڈے تلے ہی پاس کرنا ہے ،جہاں پانچ چھ کتابیں نصاب ہیں۔ پھر ان وزنی کتابوں کا کیا فائدہ ؟ میری جان کاری یہی ہے کہ کتابوں کے ان انباروں کو یہ نجی ا سکول کچھ نہیں پڑھاتے بلکہ صرف انہیں بیچنے کے لئے ہی شمال ’’نصاب ‘‘ کیا جاتا ہے ۔یہ کیسی لاچاری ، مجبوری، مذاق کی تصویر ہے طلبہ اور پھر ان کے والدین کے لئے کہ انسانوں کو گدھا سمجھ کر ان پر منوں وزن بڑھاتے ہین تاکہ ان کی تجوریوں کا وزن بڑھ جائے ۔ میری یہ رائے سارے نجی تعلیمی اداروں پر منطبق نہیں ہوسکتی، البتہ ابھی تک میری نظروں سے کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں گذرا جس کی پہلی اور اولین ترجیح تعلیم وتدریس ہی ہو اور اس کے بعد حال طریقے سے کمائی کی بات ہو۔ ابھی کچھ مدت پہلے تین نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اخبارا ت میں اس لئے جگہ پا گئے کہ انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے شاگردوں کو بے رحمی اور وحشیانہ طور سے مارکر زخمی کر دیا، مثلاً حاجن سوناواری کے کسی نجی ادارے نے اپنے تمام شاگردوں کو بیک جنبش قلم امتحان میں بیٹھنے سے محروم کر کے سینکڑوں طلباء کو ناکردہ گناہ کی سز ادی۔ یہ سب اسکولوں میںکیا ہورہا ہے ، تعلیم کے نام پر قوم کے نونہالوں کے ساتھ، مستقبل کے معماروں کے ساتھ اور لٹے پٹے عوام کی اُمیدوں کے ساتھ یہ کیسا ظلم عظیم ر وا رکھا جارہا ہے؟ افسوس تعلیمی حکام اور متعلقہ منسٹر صاحب ان منہ بولتے حقائق کا کبھی کوئی نوٹس ہی نہیں لیتے۔ اس لاپروائی اور شان ِ بے نیازی کی وجہ سے بھی ایجوکیشن کی عبادت کو انڈسٹری بنانے کے لئے وہ سب لوگ بھی اس میںکود گئے ہیں جن کا خود تعلیم کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں بلکہ جو سچ میںتعلیم کی ابجد سے بھی واقف نہیں ۔ ان کم سواد لوگوں کا تعلیم جیسے اہم میدان میں موجود ہونا ہی ہمارے مستقبل کے لئے بدشگونی ہے ۔ ا س سے ہمیں ایک اچھے اور کارگر انسانی مواد کی فراہمی کی کیاگارنٹی مل سکتی ہے ۔ یہ انسان نما جو نکیں والدین کے جسموں سے کی طرح چمٹ کر ان کا لہو چوستی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں علم کے مراکز کے توسط سے سماج میں بہت ساری خرابیاں درآئی ہیں۔ یہ ناخواندہ لوگ دلالی کھانے کے لئے کتابوں کی سلیکشن بھی کرتے ہیں ، ان پر پہلے اپنی مرضی سے قیمتیں چھپوا دیتے ہیں ، کاپیاں بھی خود ہی بیچتے ہیں ، یونیفارم کی بات ہی نہیں پنسل ، ربر، شارپنر اور اسٹیشنری تک بیچ کر طلبہ کو لوٹتے ہیں ۔بہت سارے والدین اور پڑھے لکھے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تعلیم وتدریس اب بھولا بسرا گیت ہے جس کا گیت کار اب صرف یادوں کی دھند لکے میں گم صم نہیں ۔ قطعی نہیں تعلیم وتدریس آج بھی ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے ، اس کے چراغاں سے راہیں اور منزلیں صاف نظر آرہی ہیں ، اس کے بل پر تہذیب اور ترقی کا کارواں چل رہاہے ، آج بھی دانش کدوں کی گہماگہمی دنیا بھر میں ہے ، فرض شناس استاد کی فکر انگیزی ، نورانی بصیرت اور بے لوث جذبوں سے آج بھی بہتر انسانوں کو پیدا ہورہے ہیں ۔ ہاں ، افسوس کہ ہمارے یہاں یہ رِ یت اور روایت خود غرضانہ سیاست اور نری مادیت کے جڑواں بھائیوں کی یرغمال بن کرتعلیمی اداروں کو قبرستان اور شمشان گھاٹ میں بدل رہی ہیں لیکن ایسے نہیں چلے گا بلکہ ہمیں ہر حال رائے عامہ منظم کی اصلاح کرواکے اس شعبے کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا تاکہ کشمیر میں تعلیم وتدریس کی ضیاپاشیاں ہماری شہ رگ اور اٹوٹ انگ ثابت ہو ں۔
رابطہ 9419514537