اللہ تعالیٰ کا بے حد حمد و ثنا ،جس نے ہمیں اس دنیا میں لاکر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ۔ ان عظیم ترین نعمتوں میں ایک بڑی نعمت جہاں والدین کے لئے بچے ہیں وہاں بچوں کیلئے والدین۔والدین جو اپنے بچوںکو زندگی کے ہر موڈ پرساتھ دے کر انکا مستقبل روشن کرتے ہیں۔ اولادکی پرورش ،تعلیم و تربیت اور اُن کی اصلاح ِنفس والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین پر یہ ذمہ داری بھی لاگو ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے کریں،جس سے بچے کی زندگی میں کوئی اخلاقی بگاڑ اور کرداری نقص نہ رہے، تاکہ وہ اپنےخاندان،اپنے معاشرے اور قوم و ملت کے لیے مفید ثابت ہوسکیں ۔دراصل تربیت کا مطلب ہی ہے اصلاح کرنا ،انسان سنوارنا، اسکو تمام بُرائیوںاورخرابیوں سے دُور رکھنا ہے ۔ بغوردیکھا جائے تو دنیا میں بہت سارے فنکار ، خوبصورت ، حسین و جمیل اور کافی مال و دولت رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ۔ لیکن حسن و اخلاق سے عاری ہیں۔جبکہ حسن و اخلاق انسانیت کا ایک اہم ترین جُزہوتا ہے ۔کسی بھی انسان کی شناخت اسکے اخلاق و کردار سے ہی کی جاتی ہے ۔ انسان کیسا ہے،اس کا پتہ اسکے اخلاق و کردار سے ہی چل پاتا ہے۔اس ضمن میں اگر بات کی جائے تو بچے کی پہلی اخلاقی و اصلاحی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے ۔لہٰذاا باپ کے مقابلے میں ماں اسکی زیادہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔گویاماں کی تربیت انسانی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ ایک ماں کو پہلے سے ہی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے، جب اس کا حمل ٹھہر جائے، اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اس کے بطن میں ایک بچہ پل رہا ہے ۔اس لئے اگر میں کوئی حرام چیز کھاؤں یا کسی بُرائی میں ملوث رہوں تو اس کا اثر میرے بچے پر پڑسکتا ہے ۔ علماء کرام بھی فرماتے ہیں کہ دوران ِ حمل ایک ماں کونیک خیالوں، اچھے کاموں اور تلاوت قرآن میں زیادہ مصروف رہنا چاہئے ، تمام بُرائیوں،ناحق پریشانیوں اوربے جا لڑائی جھگڑوںے سے بچنا چاہئے۔اسلام نے ہمیں دنیا کے ہر کام میں رہبری و رہنمائی کی اور ایک بہترین معاشرہ بنانے کیلئے ہمیں نکاح کرنے کیلئے ایک دیندار عورت سے شادی کرنےکا حکم دیاہے، تاکہ حُسنِ معاشرہ کی بنیاد پڑ جائے، اور جو بچے اس قوم میں پیدا ہوجائیں، وہ معاشرے کیلئے چراغ راہ بن جائیں۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو عورت ضرورنیک سیرت پڑھی لکھی ہونی چاہے۔ خواتین معاشرے کی دھڑکن ہوتی ہے ، عورت تعلیم یافتہ ہو تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترخیال رکھتی ہے اور دوسرے لوگوں کا بھی مستقبل روشن بناتی ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر دھیان دیں، انکی زندگیاں سدھاریں تو وہ بچے اپنے والدین کے لیے باعث رحمت اور صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں۔ اس لئے والدین کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور نیک برتاؤ کریں اور نرم مزاجی کے ساتھ پیش آئیں، تاکہ بچے والدین کی نصیحت پر عمل کرسکیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں بچوں کے ساتھ رحم دلی،شفقت اور نرمی کارویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ۔ والدین اپنے بچوں کی زندگیوں میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ والدین جو کچھ بھی کرتے رہتےہیں ،بچے انہی کی نقالی میں ان چیزوں کو خود میں پیوست کرتے ہیں اور ذہن میں بٹھاتے ہیں اور پھر ان کے عادی بن جاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کیلئے انکے گھر کا ماحول بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ بچے جو کچھ اپنے گھر والوں کو کرتے دیکھتے ہیں، وہ اُنہی کو اپنا کر اُسی ماحول میں گل مل جاتے ہیں ۔اگر ماں باپ جھگڑالو ہوں گے، طعنہ زنی اور فحش کلامی میں کرتے ہونگے تو لازما ً اس کا اثراُنکے بچوں پر پڑ جائے گا اور یہی چیز پھر آئندہ کی نسل کےلیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اسلئے والدین کو اپنے بچوں کے سامنے ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہئے۔اپنے بچوں کو قرآن و سنت کی باتیں کرنی چاہئے، ان کو فلموں اور فلمی اداکاروں کے قصے سنانے کے بجائےاپنے صحابہ کرام کے قصے اور کارنامے سنانے چاہئے۔اُنہیںاُن باتوں سے آگاہ کرنا چاہئےجو انسان ،معاشرہ اور انسانیت کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اور اگر ماں باپ یہ چاہیںکہ ان کا نام لیوا باقی رہے تو نہایت ضروری ہے، وہ اپنے اولاد کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیں ۔انہیں بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار کرناسکھائیں۔ آجکل یہی دیکھنے میں آتا ہےکہ تعلیم دلانے کا مقصد محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بن جائے ۔بیشتر والدین بچے کے ذہن میں اس بات کو ٹھوس دیتے ہیں کہ ہماراتیرے بغیر کوئی سہارا ہے نہیں ۔ اس لئے پڑھائی کرکے تمہیں بہت پیسہ کمانا ہےتاکہ ہم بڑے آدمی (دولت مند)بن جائیں۔ظاہر ہے بچپن سے لے کے بڑا ہونے تک بچے کے ذہن میں یہی باتیں رہتی ہیں کہ میں کس چیز کے لئے پڑھائی کر رہا ہوں، مجھے بڑا آدمی بن کر اپنے والدین کا سہارا بننا ہے ۔ اور پھر جب پڑھائی مکمل کرنے بعد کوہ کسی چھوٹے یا بڑے عہدے پر فائز ہوجاتا ہےتو پیسہ کمانے کے چکر میں اپنی اصل مقصدِ زندگانی اور انسانیت کو بھول جاتا ہے ۔ اس کے پاس تعلیم کا مقصد محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔والدین کو اس بات کی کوئی فکر نہیں رہتی کہ اُن کا بچہ حلال کماتا ہے یا حرام۔انہیں لالچ و حوص ایسے پکڑ لیتی ہےکہ بس مال و دولت کی فکر پڑی رہتی ہے۔اوراس طرح اُن کی دُنیوی اور دینی زندگی دونوں بُرباد ہوکر رہ جاتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تو دنیاوی تعلیم دیتے ہیں لیکن جو تعلیم انسان کاانسانیت کا پیکر بناتی ہے، جو اسکو اچھائی اور برائی میں تمیز کرواتی ہے ، جو بڑوں کا ادب اور استادوں کا احترام ،کمزوروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنا سکھاتی ہے ، حسن اخلاق اوردین داری سکھاتی ہے ،اُس تعلیم سے بچوں کو محروم رکھا جاتا ہے ۔ جسکا نتیجہ آج پوری انسانیت چکھ رہی ہیں۔ وجہ واضح ہے کہ والدین نے اپنی ساری ذمہ داریوںکو نہیں سمجھتے ہیںاور اگر جانتے بھی ہیں تو اُنہیں پورا نہیں کرتے ہیں۔ اسلام نے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مخلوطی نظام پہ سخت ممانیت کی ہے کیونکہ اسکی وجہ سے انسانیت جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ والدین اس چیز کے ذمہ دار ہیں کیونکہ والدین ہی اپنے بچوں کے رہبر و رہنما ہوتے ہیں ۔ جو انسان کواپنی دین کی تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے وہ کسی بھی وقت حیوان بن جاتا ہے۔ اس میں حلال و حرام میں تمیز نہیںرہتی اور وہ حق اور ناحق کو نہیں سمجھ پاتا۔آج کل تو بچے خودکشیوں کے شکار ہوتے ہیں ،شراب نوشی ،زنا کاری اور باقی بُری کاموں میں مبتلا ہیں۔بیشتربچوں کو منشیات کی لت لگ چکی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت نہیںہوئی ہے ۔ ایک بچہ تو تبھی اپنے والدین کا ادب و احترام کرے گا، جب اُسنے قرآن و سنت کو پڑھا ہوگا۔ اگراُس کا مقصدِ زندگی محض دنیاوی تعلیم حاصل کرکے بڑا آدمی بننا ہوگا تو پھر وہ نہ صرف اپنے والدین،اپنے معاشرے بلکہ پوری قوم کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا ۔ والدین کو اس بارے میں سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتا ہے ۔جب وہ دیندار نہیںتو بچے کیسے دینداربن جائیں۔جبکہ اپنی ماں کے عادات بچوں میں کوٹ کوٹ کر پیوست ہوتے ہیں ۔ لہٰذا والدین کو اس معاملے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں کا کردار بچوں کی زندگی میں کافی اہمیت رکھتا ہے اور بہترین ماؤں سے ہی بہترین سماج بن جاتا ہے۔ اگر ماں نیک صالح اور تربیت یافتہ ہوگی تو قوم میں صلاح الدین ایوبی جیسے فاتحہ ،عمرؓ جیسے بہادر ،عثمانؓ جیسے حیادار ،ابوبکر ؓجیسے صادق اور امانتدار تاجر،علی ؓجیسےحیدر و علِم والے ،بلال جیسے ایمان والے ،حمزہ جیسے بہادر غازی پیدا ہونگے، جو دنیا میں انقلاب پیدا کریں گے ۔ یہ صرف اورصرف تب ہی ہوسکتا ہے جب مائیں اپنے اندر ویسا ہی کردار پیدا کریں جیسا کہ ہماری صحابیاتؓ کا تھا ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوگا جب والدین اپنی اصل ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیں گے ۔ آخر پہ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر والدین کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں تاکہ ہماری قوم کا مستقبل روش ہوجائے ۔آمین
(آونیرہ شوپیان ۔طالب علم: جامعت البنات سرینگر)