رئیس یاسین
تعلیم سے قوموں کو عروج حاصل ہوتا ہے۔ ہماری ریاست جموں و کشمیر میں تعلیم کا ایک بہترین ماحول ہے۔ جب سے NEP 2020 وجود میں آیا، تب سے تعلیم میں بہت سارے بدلاؤ دیکھنے کو ملے۔ جہاں پر ایک جانب اعلی تعلیم کے لیے کالجوں اور یونیورسٹی میں طلبہ اپنی پسند سے کوئی بھی مضمون کا انتخاب کرسکتا ہے۔ اس طرح پرائمری تعلیم میں بھی کچھ نئی چیزوں کو لاگو کیا جاتا ہے. وہ روایتی طرز کی تعلیم سے نکل کر جہاں پر کتابی نصاب سے نکل کر غیر نصابی سر گرمیاں کو بھی برابر وہی اہمیت دی جا رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 ہمہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو تعلیمی نظام میں ضم کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے تاکہ ہمہ گیر ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ سرگرمیاں طلباء میں فکری، جسمانی، جذباتی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔ وہ زندگی کی اہم مہارتوں کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں جیسے کہ قیادت، ٹیم ورک اور مسئلہ حل کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ مزید برآں، غیر نصابی سرگرمیاں، خاص طور پر کھیل، طالب علموں کی جسمانی اور ذہنی تندرستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو NEP 2020 کے اچھے افراد کی پرورش کے ہدف کے مطابق ہے۔
جہاں تک تعلق ہے۔ NEP 2020 کا اس میں بچوں کے ساتھ پیش آنے کا تعلق ہے تو بچوں پر کسی بھی قسم کی زیادتی کرنا قانوناً غلط ہے۔ بظاہر، اساتذہ پرانے اسکول کے تصور پر یقین رکھتے تھے کہ ‘چھڑی کو چھوڑ دو اور بچے کو خراب کرو۔ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جسمانی سزا نہ صرف غیر قانونی ہے، بلکہ اس کا کوئی فائدہ مند مقصد بھی نہیں ہے۔ جسمانی سزا صرف بچے کی خود اعتمادی اور اس کے سیکھنے کے خیال کو ایسے ماحول میں نقصان پہنچا سکتی ہے جو اس کے حاصل کردہ نمبروں سے اس کی تعلیمی قابلیت کو پہچانتا اور مناتا ہے۔100فیصدپاس فیصد کے اہداف کے تحت چلنے والے اساتذہ کو ان کی اپنی تصدیق کے لیے والدین اور طلباء کے علاوہ ادارہ جاتی قبولیت اور تعریف کی ضرورت ہوتی ہے۔ 100 کی کلاس میں، اگر 15 سست سیکھنے والے ہیں یا کچھ کو رویے سے متعلق مسائل ہیں، تو اساتذہ کی وصولی کے آخر میں کون ہوگا؟
ظاہر ہے، طلباء کی آخری دو اقسام بدقسمتی سے ایسے اساتذہ نہ تو چھڑی کو چھوڑتے ہیں اور نہ ہی عمر بھر بچوں پر اس کے مضر اثرات کی فکر کرتے ہیں۔ جسمانی سزا ادارہ جاتی یا کسی بھی قسم کی تعلیم کے لیے رکاوٹ ہے اور اسکول چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ ہے، خاص طور پر دیہی اور نیم شہری علاقوں میں۔اسکولوں میں سزا کے دیرپا اثرات ہو سکتے ہیں، بشمول دائمی اضطراب، ڈپریشن، اور کم خود اعتمادی، جو بالغ ہونے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ یہ تعلیم کے بارے میں منفی رویہ کو فروغ دے سکتا ہے، جس سے علیحدگی اور کم کامیابی ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، طلباء میں اتھارٹی کے تئیں عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے اور بڑھتی جارحیت اور غیر سماجی رویے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ یہ نفسیاتی اور رویے کے اثرات ان کے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو خراب کر سکتے ہیں، کیریئر کے مواقع کو محدود کر سکتے ہیں اور ان کے مجموعی معیار زندگی کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ بچوں پر چیخنے چلانے سے ان کی شخصیت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے بچے ڈپریشن کا بآسانی شکار ہو سکتے ہیں۔
اینٹ ماہونی اوہائیو کی بولنگ گرین یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ اینٹ کہتی ہیں کہ، ’’اس تحقیق کا لب ِلباب یہ ہے کہ بچوں سے کس انداز میں بات کی جائے، یہ رویہ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہم اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں مگر ہماری تحقیق سے پتہ چلا کہ جس انداز میں والدین اور استاد بچوں سے بات کرتے ہیں، اس کے بچوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ اور اساتذہ بچوں پر چیختے چلاتے رہیں یا پھر بچوں پر ہاتھ اٹھائیں تو اس سے بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔‘‘
اس تحقیق میں شامل کیے گئے تمام بچے کسی ذہنی بیماری یا تناؤ کا شکار تھے یا پھر ان کے روئیے دوسرے بچوں کی نسبت مختلف تھے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ بچے زیادہ ذہنی تناؤ، ذہنی بیماریوں یا پھر روئیوں میں تبدیلی کا شکار تھے جن کے والدین اور اساتذہ یا تو ان پر چیختی چلاتی تھیں یا پھر انہیں مار پیٹ کا نشانہ بناتے تھے۔ جبکہ اگر بچوں کو والد اور اساتذہ کی جانب سے بھی ایسے ہی رویئے کا سامنا ہو تو پھر بچوں میں ڈپریشن میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس تحقیق میں یہ امر بھی سامنے آیا کہ جو والدین اور استاد بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بناتے ہیں یا پھر چھڑی سے انہیں ڈراتے ہیں، ایسے بچے ذہنی طور پر زیادہ بیمار ہو جاتے ہیں اور عام زندگی میں ان بچوں کے روئیے دوسرے بچوں سے مختلف ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے لیے ایسے 239 بچوں پر تحقیق کی گئی جن کی عمریں 11 سے 18 برس کی تھیں۔ بچوں سے پوچھا گیا اگر گذشتہ ایک برس میں انہیں اپنے والدین اور استاد کی جانب سے مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا یا پھر کبھی انہیں برے ناموں سے بلایا گیا یا ذہنی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس تحقیق میں بچوں کے والدین اور استاد کو بھی شامل کیا گیا۔51٪ بچوں کا کہنا تھا کہ انہیں والد یا استاد یا دونوں کی جانب سے شدید زبانی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایسے بچوں میں جنہیں والدین اور استاد کی جانب سے چیخ و پکار یا پھر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا، کئی مسائل نوٹ کیے گئے۔ یہ بچے اضطراب، ڈپریشن یا پھر ایسے روئیوں کا شکار تھے اور انہیں اصول توڑنے میں تسکین ملتی تھی۔ اصل میں تعلیم کا مقصد نمبرات حاصل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ بچوں کو معاشرے کے لیے تیار کرنا۔ ان کی شخصیت سنورنا جس سے ان کے اندر پڑھنے کا شوق بڑ ھ جائے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو ایک ایک بچے کی نفسیات کو سمجھ سکے۔ بچوں سے محبت اور پیار سے پیش آئے، اس چیز کا دھیان رکھے کہ ہر ایک بچے میں ایک جیسی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ حکومت کو بھی اس چیز کی طرف غور کرنا چاہئے کہ بچوں کا سلبس کو اس طرح فریم کیا جائے کہ ان پر دباؤ ہو جائے۔
رابطہ : 7006760695