رائج الوقت نظام ِ تعلیم کے بارے میں بیک وقت دو متضاد آراء پائی ہیں :اول یہ فرسودہ ہے ، لایعنی ہے ، صرف تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی فوج بڑھا تاجارہاہے ،دوم یہ صرف قلم اور کتاب ہے جن کے بل پر ہم نے تاریک فضاؤں ا ورمایوس کن حالات میں بھی اپنی لیاقت و قابلیت کا ڈنکا بجایا ، اپنی خداداد ذہانت کی قندیلیں روشن کیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے طلبہ وطالبات میں بہترین صلاحیتوں کا فقدان ہے یا وہ ستاروں سے آگے جانے کی قوت ِ پرواز سے محروم ہیں بلکہ اصل بیماریاں یہ ہیں کہ تعلیم وتعلم کا مردم ساز مشن اپنی مقصدیت کے ساتھ اپنی جہت بھی کھو گیا ہے اور مقصدیت بھی۔ اس لئے تعلیم کا مطلب صرف ڈگر یوں کے حصول تک محدود ہے، تعلیم کے اینٹ گارے سے قوم کی اخلاقی تعمیر نو کا کام لینے کانظریہ سرے سے نظروں سے اوجھل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سماج میں اساتذہ کی تعظیم وتکریم کو بٹہ لگا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کبھی اساتذہ کی تنخواہیں مہینوں رْکی پڑی رہتی ہیں ، کبھی ان کی قابلیت اور ڈگریوں پر بلا استثنیٰ شک کی سوئیاں گھمائی جاتی ہیں، کبھی ان کا امتحان لینے کے مسئلے کو اْلجھا یا جاتاہے، کبھی ان سے وہ کام لئے جاتے ہیں جوان کے شایانِ شان ہوتے ہیں نہ ان کے پیشے سے کوئی مطابقت رکھتے ہیں۔ بہر صورت ارباب ِ اقتدارپر یہ اہم فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نظامِ تعلیم کو لا حق ان مسائل ا ور بیماریوں کا موثر علاج کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں۔بصورت دیگر ہمارے یہاںتعلیم کانور ماند پڑ سکتا ہے اور معاشرہ جس ہمہ گیر بگاڑ اور زوال کی ڈگر پر پہنچا ہے،وہ مزید گھمبیرتا اختیار کر ے گا۔ اگر ہم تعلیم کی وساطت سے ایک تہذیب یافتہ، احساس ِ ذمہ داری سے لیس اوراصلاح پسند معاشرے کی تعمیر و تشکیل چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمارے تدریسی سسٹم کانتیجہ خیز خطوط پر استوار ہو نا یا بالفاظ دیگر اصلاح یافتہ ہونا شرط اول ہے۔ ا سی اصلاح شدہ تعلیمی نظام کے زیر سایہ جواں نسل کی اْٹھان ایسے انداز میں ہو نے کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہم دیش اور دنیا میں سر اْٹھا کر جینے کے قابل ہو سکیں گے۔ تاریخ یہ درس دیتی ہے کہ جوقوم علم وآگہی میں آگے ہو وہ دیر سویر اپنے بحرانوں پر قابو پاتی ہے ،جب کہ ناخواندہ قوم ذہنی پسماندگی اور بیمارسوچ کی شکار ہوکرا پنا مقصد ِزیست کا راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ ان معنوں میں اس قوم کو مرحبا ملنی چاہیے کہ لاکھ خرابیوں اور ہزارہا مشکلات کے باوجو یہ تعلیم کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کر نے پر تیار نہیں بلکہ اس نے نامساعد وناگفتہ بہ حالات میں بھی تعلیم کے ٹمٹماتے چراغ کوگل نہ ہونے دیا۔ ہمارے تعلیمی نصاب کے بارے میں روزِاول سے حقیقت شناس اور بیدار ذہن لوگوں کی ایک شکایت یہ رہی ہے کہ اس میںسے اخلاقیات کا عنصر کھرچ کھرچ کر ہمارے قد آور حکمرانوں اور سیاسی قائدین نے قوم کے ساتھ کچھ بھلا نہ کیا۔ وقت کی پکار ہے کہ جب بھی تعلیمی حکام نظام تعلیم کی اوور ہالنگ کی جانب متوجہ ہو نے کی توفیق پائیں تو سب سے پہلے اس جانب اپنی فکریں مر کو زکریں کہ نظام ِ تعلیم اخلاقیات کی مہک سے آراستہ ہو تاکہ جواں نسل اس سے بہرہ ور ہوکر مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنے فرائض کا میابی سے اداکر نے کے قابل ہو سکے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ تعلیم سے ذہنی ارتقاء کے پہلو بہ پہلو اگر بوساطت تعلیم کردارسازی کا کام لیا گیا ہو تا تو شاید آج جوان نسل منفی راہوں کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ لڑھکتی نظر نہ آتی۔ اب اس جان لیوا روگ کا تدارک کر نا تبھی آسان ہوگا جب تعلیمی نصاب میں درسیات اور اخلاقیات کا ایک حسین امتزاج پھر سے متعارف کرایا جائے۔ البتہ یہ بات ہمیں زیر نظر رہے کہ نظام ِ تعلیم کو عملاًچلانے میں اساتذہ کا رول شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر ٹیچر فرض شناس ہوں ،ا پنے پیشے کے تقدس سے آگاہ ہوں، نئی نسل کی تعلیم وتربیت میں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے والے ہوں تو فبہا ور نہ کوئی تعلیمی اسکیم کتنی بھی کارآمداور عمدہ ہو سب رائیگاں۔ تعلیم وتدریس کے کثیرالجہت موضوع پر بات اگر وسیع تر تناظر میں کی جائے تواس حقیقت کی گرہیں خود کھل جائیں گی کہ آج بھی ایک استاد کا مقا م زندہ قو مو ں میں قابل ِرشک ہے کیونکہ اسی کے دم قدم سے فکروعمل کی روشنیاں جگمگا رہی ہیں اور انسانی سماج کے تہذیب وارتقاء کا سفر جا ری ہے۔ جس قوم کا ٹیچر اپنے پیشے کی اصل اہمیت کا جان کار ہو ، بصیرت کاشناور ہو، زندہ ضمیرکامالک ہو، ہمددری کا مجسمہ ہو ، تو لازماً کا میابیاں اُس قوم کے قدم چومنے سے نہیںرُکتیں، عزت و آبرو کے چاند تا رے اُسے جھک جھک کر سلام کر تے ہیں، پیا راوروقار کے پھو ل اس کی راہوں میں بچھاتے ہیں ، مگر یہ سب چیزیں فرشتہ خصلت اساتذہ کی تدریسی کاوشوں اور کردار کی صدائے بازگشت ہوتی ہیں۔ماضی ٔ قریب تک ہما رے یہا ں ایسے سنجیدہ فکر اور صالح مزاج اساتذہ کرام کی بھر ما ر تھی۔ان رشک ملائکہ اساتذہ سے طلبہ وطالبات اپنی اپنی طلب اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتے ، ایسے استادوں کی سماج میں عزت وتوقیر ہوتی اور یہ ہر وقت و الدین سے دعائیں لیتے۔ مسلم تو مسلم اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے نیک خصلت پنڈت اور عیسائی مشنری والے بھی اپنے پیشے پر سب کچھ نچھاور کر نے والے ہوتے۔ دیانت ،مہارت ، شفقت،سادگی، سچائی ، خلو ص اور ہمدردی کے پتلے ایسے اساتذہ آج خال خال ہی نظر آتے ہیں بلکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ اب ہر شعبۂ زندگی میں ایسے لوگ سرے سے ہی عنقا ہیں۔اس بد قسمتی کی ایک نہیں سینکڑو ں وجوہات ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کو اب ایسے سیرت ساز فرشتوں کی زیادہ تلاش ہے جن پر میردرد ؔا یہ مصرع’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کر یں‘‘ صادق آئے۔ اگر سچ مچ تمام ٹیچر سو سائٹی میں اپنے کھو ئے ہوئے وقار کی بحا لی اور مالک ِارض و سماء کی رضاچاہتے ہیں ،تو انہیں اس کے لئے تعلیم گاہوں میں محنت ، تندہی اور لگن کااینٹ گا را، خلو ص کا سامان ِ آرا ئش اورسب سے بڑھ کر خدمت ِخلق اللہ کی قندیلیں فروزاں کرنا ہوں گی ، مگر ہاں اس کے لئے نظام ِتعلیم کی دُرستگی کے بین بین صحیح الفکر اور وسیع المعنی نظر یہ ٔ تعلیم اور جواب دہی کا پختہ نظام ہمارے لئے شہ رَگ کی حیثیت رکھتا ہے۔