تعلیمی ادارے کھُلنے کے بعد !

اب لگ بھگ دو ہفتے سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جب سے یہاں پر تعلیمی اداروں نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ مختلف وردیوں میں اسکولی بچےتعلیمی اداروں کی طرف رواں دواںہیں ۔ طلباء و طالبات سے زیادہ اُن کے ماں باپ اس کار خیر میں سرگرم ہیں۔ بچوں کو تیار کرنا، اُن کو سکول لے جانا اور پھر واپسی تک ان کے لئے فکر مند رہنا،والدین خاص کا ماوئوں کی ذمہ داری بن گئ ہے۔ اسکولی اساتذہ بظاہر ہشاش بشاش دکھائی دے کر اپنی ذمہ داری نبھانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تین سال میںتعلیم کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے، اس کا ہر ممکن تدارک کیا جائے۔ مگر حقیقت میں یہ کام اتنا آسان بھی نہیں، جتنا کہ یہ دکھائی دے رہا ہے۔ 
چنانچہ اب جبکہ طلباء و طالبات حصولِ تعلیم کے لئے تعلیمی اداروں میں داخل ہو چکے ہیںتو اب اُن کے مستقبل کا سوال بھی اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔جس پر فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔زیر تعلیم بچوںکے بدلے ہوئے رویے اور مزاج کے باوجود اُن کے ساتھ اب کس انداز اور کس حکمتِ عملی کے تحت پیش آنا چاہیے۔یہ اب اساتذہ کی اہم ذمہ داری بن گئی ہے۔طالب علموں کو علم کی طرف مائل کرنےاور تدریسی عمل کا پابند بنانےکی بھی اشد ضرورت ہے۔بچے وہ تعلیم حاصل کر سکے جو اُن کو زندگی میں معاون ثابت ہو، وہ تعلیم جو اُن کی زندگی کے مسائل کو حل کرسکتے ہوں، ایسی تعلیم جو خوشیوں کی نوید بن سکتی ہو،پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کس قسم کے ہونے چاہیے۔ سماج کا رول کیسا ہونا چاہیے۔ گھریلو صورتحال اور ماحول کیسا ہونا چاہیے،کا لحاظ رکھنا بھی لازمی ہے۔ ذیل میں ہم کچھ اہم باتوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں، جو ہم سب کو اب طلباء کو پڑھاتے وقت یاد رکھنی چاہیے۔  
     پہلا ہے طلباء کی زندگی کے لئے پڑھائی۔ جس کے لئےاب سرکار کو ایسا نصاب تیار کرنا چاہیے، جو پورے سماج کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدارکومدنظر رکھ کر ہو۔ سماج کی اچھائیوں اور برائیوں کومدِ نظر میں رکھ کر ایسا نظام تیار کیا جائے، جو طلباء کو زندگی کے درپیش سُلگتے ہوئے مسائل سے روشناس کرائے اور اُن مسائل کا حل بھی تجویز کرسکے۔ ایک طالب علم اپنی پڑھائی پوری کرنے کے بعد سماج میں adjust ہونے کے لئے لاکھ جتن کرتارہتا ہے، مگر وہ کسی بھی طرح اس میں ایڈجسٹ ہونے میں کامیاب نہیں ہوپاتا ہے۔ تو اس قسم کی پڑھائی کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسی تعلیم مہیا کی جائے جو ایک طالب علم کو زندگی جینے کا ڈھنگ سکھائے،وہ بہتر ہے۔ دوسرا ہے طلباء کو انسان کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔ آج تک طلباء کو صرف پیسوں کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ایک بہانے اور دوسرے بہانے سے طلباء کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ طلباء کو سانس لیتے ہوئے اور احساسات سے لبریز انسان سمجھا جائے۔ ان کو یہ بات باور کرائی جائے کہ ہم معلم اور آپ کے خیر خواہ ہیں ،جو چاہتے ہیں کہ انسان کو انسانیت کا شرف دلاسکیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان کے اندر جو بہترانسان موجود ہے اس کو بہترین بنانے کی کوشش کی جائے۔ تیسرا ہے معاشی حالات کی فکر۔ہم سبھی جانتے ہیںکہ اپنی اس وادی میں عرصۂ دراز سے چلے آرہے غیر یقینی حالات اور پھر پچھلے دو برسوں کے کورونا قہر نے کئی بچوں کے سہارے چھین لئےہیں،کسی کا باپ یا کسی کی ماں کرونا قہر کی نذر ہوچکی ہیں،کئی زیر تعلیم بچے اب یتیم ہوچکے ہیںاور پھرقریبا تین سال کے لاک ڈاؤن معاملے نے بھی غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہےاور ستم بالائے ستم مہنگائی کی مار بھی جاری ہے۔گویا بیشتر اسکولی بچے بھی حالات کے زخموں سے چور چور ہیں۔ان سبھی باتوں کو مدنظر رکھنے کی اہم ضرورت ہے۔ اب غریب گھرانوں میں اس بات پر غوروفکر ہورہی ہے کہ کیا ہم بچوں کی تعلیم کو مزید آگے بڑھائیں یا پھر اُن کو شروع سے ہی کسی ہنر سے آشنا کرکے چار پیسے کمانے کا طریقہ سکھائے۔ تو اس صورتحال میں ہمیں چاہیے کہ طلباء کی ضرویات کا خیال رکھیں۔ اگر کوئی بچہ ماہانہ فیس دیر سے ادا کرتا ہے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ موقع دے کر ہم اُن سے فیس وصول کر سکتے ہیں۔ زیادتی کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ طالب علم پڑھائی چھوڑ دے۔ اِس کی جیتی جاگتی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں، جہاں طلباء نے تعلیم کو اس لئے الوداع کیا کیونکہ وہ وقت پر فیس ادا نہ کر پائے، جس کی پاداش میں ان پر اتنا زیادہ بوجھ ڈالا گیا اور وہ اُس کے نیچے دب گئے۔ چوتھا ہے مزاحیہ انداز میں پڑھانا۔ ہر موڑ پر طلباء کو پرانی یادیں ستاتی رہیں گی۔ خوف، دوریاں، موت، وغیرہ جیسی چیزیں اُن کو بار بار تڑپاتی رہیں گی۔ تو اس موقع پر طلباء کو ہنستے مسکراتے ہوئے اُن زخموں کو بھرنے کی کوشش کرنی ہے۔ وہ زخم جو ہر سیکنڈ کے بعد تازہ ہوجاتا ہے، اس پر مرہم پٹی کرناضروری ہے۔ ضرورت سے زیادہ کام کروانا، کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اُن کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ وہ روح کو چھلنی کرنے والے دن، جب اپنوں میں غیر تھے، اُن معصوم بچوں کو ستاتے رہیں گے۔ خوشیوں کے لمحات میں بھی آنسوؤں کی لڑی لگ سکتی ہے۔ 
      آگے کا کام بہت مشکل ہے۔ یہاں پر counseling کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ حکومت اور عام لوگوں کو چاہیے کہ تجربہ کار counsellors کی مدد لیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی دباؤ کم ہونے کی بہت اُمیدیں ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان نا فہم طلباء کو اچھی راہ دکھائی جائے۔ ان طلباء کا سہارا بنے، جو اپنی عمروں سے بڑے ہوچکے ہیں۔ سب کو اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ یہ دیرینہ کام ہے اور اس کے علاوہ صبر بھی مانگتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ طلباء کا مستقبل خراب نہ ہوں۔ 
(مدرس حسینی پبلک اسکول خوشی پورہ، زینہ کوٹ، سرینگر)