تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی

 گزشتہ کچھ عرصہ سے وادی میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی پر زور دیاجارہا ہے اور کچھ حلقوں کی جانب سے سکول کھولنے پر زور دیاجارہا ہے تاہم اسی مدت میں ایک بار پھر نہ صرف کورونا معاملات میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ اموات بھی ریکارڈ کی جارہی ہیں۔اس بار تقریباً تمام سکولوں میں سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا گیاہے اور والدین سکول کھولنے کے حوالے سے سکول حکام سے سوال کررہے ہیںجو کسی حد تک جائز بھی ہے کیونکہ اب تقریباً تین برسوں سے بچے سکولوںسے مسلسل دور ہیںتاہم کورونا کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اپنی جگہ پر برابر قائم ہے کہ کیا سکول کھلیں گے، یا اُس وقت تک بند رہیں گے جب تک ہمیں یقین نہ ہو جائے کہ ہمارے بچے سکولوں میں خطرے سے محفوظ ہیں۔ اس سوال کے حقیقت پسندانہ جوابات کیا ہیں؟۔ پرائیویٹ سکول جہاں ہمارے زیادہ تر بچے پڑھتے ہیں، ان کے پاس سکول کھولنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی وجوہات ہے۔ یہ وجوہات انتظامی بھی ہیں اور مالی بھی۔دونوں درست ہیں، کیونکہ زیادہ تر سکولوں کو ان تمام مہینوں میں نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے متعلقہ محکمے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں کیونکہ اس میں ہمارے بچوں کی زندگیاں شامل ہیں اور یہ استدلال بھی معقول ہے۔لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں جن کو مدنظر رکھنا لازمی ہے ۔اول یہ کہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں سکول کیسے کام کر رہے ہیں، اور دوسری ریاستوں کے متعلقہ محکموں نے اس سلسلے میں کس طرح کے فیصلے لیے ہیں؟ دوم کیا سکولوں کا کھلنا 18 سال سے کم آبادی کی ٹیکہ کاری پر منحصر ہے؟ سوئم اگر حالات ایسے ہی رہتے ہیں، تو سکول کھولنے کے لیے کیا ضروری شرائط ہیں؟ اور چہارم اگر سکولوں کو کھولنا معقول حد تک محفوظ پایا جاتا ہے تو سکولوں کو کھولنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے۔متعلقہ محکموں اور سکولوں کی انتظامیہ کو سکولوں کے کھلنے یا نہ کھلنے کی اس غیر یقینی صورتحال میں معلق رہنے کی بجائے ان تمام سوالات پر کھلی بات چیت کرنی چاہیے۔ ان نکات پر مسلسل بحث اس سلسلے میں بہتر فیصلے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ا سمیںکوئی دورائے نہیں کہ تعلیمی نقصان ہورہا ہے اور تدریسی عمل بحال ہونا چاہئے تاہم یہ سب طلباء کی زندگیوںکی قیمت پر نہیں ہوناچاہئے ۔ایک سکول میں بیسیوں علاقوںکے بچے مشترکہ طور پڑھتے ہیں اور کم ازکم ایک جماعت میں 30بچے ہوتے ہیں ۔کون جانتا ہے کہ سبھی بچے وائرس سے پاک ہیں ۔جب بھیڑ بھاڑ ہوگی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ تاہم اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ سکولوں کا تعلیمی ماحول کہیں نہیں ملے گااور بچے جو سکول میں سیکھتے ہیں ،شاید ہی کہیں سیکھ پائیں گے لیکن بچوں کو سکول لیجانے سے قبل اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کہیں ہمارے سکول پھر کورونا کے نئے ہاٹ سپاٹ نہ بن جائیں جیسا کہ دوسری لہر کی ابتدائی میں ہواتھا۔ اس کے علاوہ یقینی طور پر سب سے پہلے والدین میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ان کے بچوں سکولوں میں محفوظ ہیں ۔والدین کو اعتماد میںلینا ضروری ہے ۔اگر سکول مکمل طورکھولنے کا فیصلہ لیاجاتا ہے جس کے اب بہت امکانات نظر آرہے ہیں کیونکہ ایک کو اب سردیاں بڑھ رہی ہیں اور سرمائی تعطیلات زیادہ دور نہیں ہیں ،دوم کورونا کیس مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ایسے میں شاید ہی سرکار مشکل سے محض ایک ماہ تک سکول کھلنے رکھنے کیلئے اتنا بڑا فیصلہ لے سکتی ہے تاہم اس کے باوجود اگر فیصلہ لیاجاتا ہے تو پہلی فرصت میںسکولوں میں بھیڑ بھاڑ ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔سماجی دوریوں پر سکولوںمیں بھی عمل پیرا رہنا پڑے گا۔امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ان مشوروںپر غور کرے گی او ر انہیں روبہ عمل بھی لائے گی تاکہ تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی تک والدین میں اعتمادپیدا کیاجاسکے اور تعلیمی سفر کامیابی کے ساتھ دوبارہ شروع کیاجاسکے۔