کڑوا سچ
رئیس یاسین
طلبہ کو جب اسکول میں موافق انتظام مل سکیں گے، وہ زندگی میں کسی بھی دوڑ میں آگے نکل سکتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے سرکار نے مفت تعلیم کا انتظام کیا ہوا ہے۔ جہاں پر ابتدائی تعلیم کا بند و بست مفت میں ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو ہمارے گورنمنٹ اسکول ہیں، وہاں پر وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہے جس میں ایک غریب و مزدور کے بچے بھی دوسرے سکولی طلبہ سے مقابلہ کرسکیں۔ مرکز میں کچھ ایسے سکول بھی ہیں جہاں پر مفت تعلیم دی جاتی ہیں ۔ جن میں یہاں کے بڑے بڑے پرائیویٹ سکولوں سے بھی زیادہ انتظامات ہیں۔ لیکن ان سکولوں میں اول فہرست میں ایڈمشن دفاعی فوج کے لیے ہوتے ہیں۔ ان سکولوں میں کیندریہ ودیالیہ سنگٹھن(KVS)، نوودیا ودیالیہ سمیتی (NVS)، یہ ملک میں ایسے سکول ہیں جہاں پر تعلیم کا جدید طرز پر فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب ہم اپنے جموں کشمیر کی بات کرتے ہیں تو یہاں پر گورنمنٹ سکولوں میں وہ معیار نظر نہیں آتا ہے۔ گورنمنٹ ہر سال سکولوں میں داخلہ کے لئے مختلف طریقے عمل میں لاتے ہیں لیکن دن بہ دن گورنمنٹ سکولوں میں اندراج کم ہوتا جا رہا ہے ۔ ہمارے سامنے دہلی کی مثال سامنے ہے ۔ حکومت کی اصلاحات کا دہلی کے سرکاری اسکولوں پر گہرا اثر پڑا ہے، جس سے ان کے معیار اور ساکھ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں بہتری نے اسکولوں کو جدید کلاس رومز، بہتر صفائی ستھرائی اور کھیلوں کی بہتر سہولیات کے ساتھ سیکھنے کے لیے مزید سازگار بنا دیا ہے۔ اساتذہ کی تربیت کے اقدامات نے مزید حوصلہ افزا اور ہنر مند معلم پیدا کیے ہیں، جو براہ راست کلاس روم کے نظام کو بہتر بنا رہے ہیں۔’’خوشی کا نصاب‘‘جیسے اختراعی نصاب نے جذباتی بہبود اور تنقیدی سوچ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک زیادہ جامع تعلیمی تجربے کو فروغ دیا ہے۔ جس سےسرکاری اسکولوں میں داخلے میں اضافہ ہوا ہے، تعلیمی کارکردگی میں بہتری آئی ہے اور تعلیمی نظام میں عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے،گویادہلی کے سرکاری اسکولوں کو ہندوستان میں تعلیمی اصلاحات کے نمونے کے طور پر جگہ دی ہے۔لیکن اس کے مدمقابل ہمارے یہاں گورنمنٹ اسکولوں کی کیا حالت ہے، جس کے بہت سی وجوہات ہیں۔
گورنمنٹ سکولوں میں تو صرف اور صرف زور دیا جاتا نصابی سرگرمیوں پر، جبکہ بیشتر سکولوں میں کمپیوٹر نہیں پڑھا جاتا، نہ ہی اس کے لیے استاد دستیاب ہوتا ہے، اسطرح نہ ڈرائنگ اور دستکاری ،کیریئر کونسلر،بچوں کے ماہر نفسیات اور نہ ہی مضمون کے ماہر استاد ۔ دوسری جانب یہ بھی کہ وہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے الگ سے واش روم تک نہیں ہے۔کچھ سکولوں میں عمارت خستہ حال ہو چکی ہے اور کلاس رومز کی کمی بھی ہے۔بہت سارے سکولوں میں کھیل کود کے لئے کھیلوں کا مواد موجود نہیں جبکہ اکثر اسکولوں میں کھیلوں کا میدان موجود نہیں۔ گویا ہم مجموعی طور پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے گورنمنٹ سکول معیاری اور جدید طرز پر کام نہیں کرنے کے قابل ہی نہیںہیں۔ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئےہمارے طلبا و طالبات کتنے مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں۔ اکثر طلبہ اس طرح کی تعلیم سے کشیدگی اور ڈپریشن کے شکار ہیں۔ ہم نے تعلیم کا معیار صرف امتحانات رکھا ہے جس میں طلبہ کو صرف ایک ہی پہلوسے ترازو میں رکھا جاتا ہے۔ بچےچاہے کسی بھی سکول کے ہوں، سرکاری یا پرائیوٹ، امتحان کا نام سنتے ہی ایک عجیب بے چینی محسوس کرتے ہیں اور اُن پرخوف و ڈر کا عالم طاری ہوتا ہے۔جس کاامتحانات میںبچوں پر مضر اثرات پڑتے ہیں۔ یہاں چند اہم مضر اثرات کا ذکرکررہے ہیںجس سے بچے متاثر ہو سکتے ہیں۔
ذہنی دباؤ اور پریشانی: امتحان کا خوف بچوں میں ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سبب بنتا ہے، جو ان کی کارکردگی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
خود اعتمادی میں کمی: اگر بچے اپنے امتحان میں اچھے نمبر نہ لے سکیں تو ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے، اور وہ خود کو ناکام محسوس کر سکتے ہیں۔
نیند کی کمی:امتحان کی تیاری کے دوران بچے اکثر دیر رات تک جاگتے ہیں، جس سے ان کی نیند متاثر ہوتی ہے اور اگلے دن کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے۔
صحت کے مسائل:ذہنی دباؤ جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جس سے بچوں کو سر درد، معدے کے مسائل اور کمزوری کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سماجی تعلقات میں مشکلات:امتحانات کے دوران بچے سماجی سرگرمیوں سے دور ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے دوستوں کے ساتھ تعلقات اور خوشی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
مطالعے سے نفرت:مسلسل دباؤ کی وجہ سے بچے مطالعے سے بیزار ہو سکتے ہیں، اور پڑھائی ان کے لئے ایک ناخوشگوار سرگرمی بن سکتی ہے۔
خوفزدہ رویہ:بار بار ناکامی کے خوف سے بچے امتحان کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں، جس سے ان کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
خود اعتمادی کی کمی۔ ذہنی دباؤ کے نتیجے میں بچے پریشانی، گھبراہٹ، اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
امتحانات کے علاوہ بچوں پر مار پیٹ، بال کٹوانے،صفائی ستھرائی، دھیر سے سکول پہنچنا، فیس نہ بھرنا۔ اگر ہم دیکھیں ان جیسے چیزوں کی ذمہ دار ان کے ماں باپ ہی ہوتےہیں، ان جیسے چیزوں پر بچوں کو دوسرے بچوں کے سامنے مارننگ اسمبلی میں کھڑا کرنا، بچوں کے اندر احساس کمتری کو جنم دیتا ہے۔ بچوں کو ان چیزوں پر روک ٹوک کرنا جن کا تعلیم سے کوئی واسطہ نہ ہو، بچوں کی پریشانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
طلبہ سلیبس اور ہوم ورک کی وجہ سے اس لیے پریشان ہوتے ہیں کیونکہ وقت کی کمی، مضامین کے مشکل مفاہیم، امتحان کے دباؤ، اور وقت کی غلط انتظامی ان کی مشکلات کو بڑھا دیتی ہے۔ سلیبس میں شامل زیادہ مواد اور ہوم ورک کی کثرت سے طلبہ کو ذاتی وقت نہیں ملتا، جس سے ذہنی دباؤ، تھکن اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر ہے کہ وقت کا صحیح استعمال کریں، ہوم ورک کو حصوں میں تقسیم کریں، سلیبس میں کمی کی جائے، طلبہ کی بنیاد پر زور دیا جائے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایسا ماحول دستیاب کیا جائے جس سے طلبہ میں پڑھائی کی جانب شوق پیدا ہو جائے۔ ایسا ماحول دستیاب کیا جائے کہ وہ سکول جانے کو ہر چیز پر فوقیت دے اور ان کا دل خود پڑھنے کے لئے تیار ہو جائے۔
رابطہ۔7006760695