سرینگر// تحریک حریت نے اپنے ایک بیان میں تنظیم کے بزرگ لیڈر غلام مصطفیٰ وانی ساکن بارہ مولہ کو پچھلے گیارہ روزسے مسلسل تارزو تھانے میں قید رکھنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غلام مصطفیٰ وانی کو واگورہ کے جان بحق نوجوان کے گھر تعزیت کیلیے جانے کے ’’جرم‘‘ میں گرفتار کیا گیا ہے، حالانکہ مذکورہ متوفی موصوف غلام مصطفیٰ وانی کا قریبی رشتہ دار تھا اور رشتہ داروں کی تعزیت کرنا حکومتِ وقت کی نظر میں ایک جُرم قرار دیا گیا ہے۔بیان میں تحریک حریت نے پولیس کی اس کارروائی کو اخلاق سوز اور انسانیت سے عاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ غلام مصطفیٰ وانی 80سال کے بزرگ ہیں۔ مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں اور موصوف کی اہلیہ پچھلے مہینے میں ہی وفات پاچُکی ہے۔ ابھی موصوف اپنی اہلیہ کے صدمے سے باہر بھی نہیں آچکے ہیں کہ پولیس نے تعزیت کرنے کو جرمِ عظیم قرار دے کر اس بزرگ کو گرفتار کرکے پولیس تھانی میں نظربند کردیا۔ تحریک حریت نے غلام مصطفیٰ وانی کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ظلم وجبر سے امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے ہیں۔اس دوران تحریک حریت کے ذمہ داروں امیرِ حمزہ شاہ، بشیر احمد قریشی اور مفتی عبدالاحد کو ایک مدّت سے جیلوں میں بند رکھنے کے بعد پھر سے فرضی کیسوں میں ملوث کرنے کی پولیس کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاگیا کہ انتظامیہ پوری وادی کی آبادی کو جیلوں میں بند کرکے اقتدار پر براجمان رہنے کے لیے انتقام کی آخری حدوں کو بھی پار کرگئی ہے۔بیان کے مطابق بشیر احمد قریشی کو کولگام پولیس نے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کرکے کولگام سے مٹن جیل شفٹ کیا، جبکہ اس سے پہلے بھی وہ کولگام پولیس کی تحویل میں ایک ماہ تک رہے، پھر وہ مٹن جیل بھیج دئے گئے۔ مٹن جیل سے ضمانت ملنے کے بعد اُن کو سرینگر لایا گیا، جہاں سے پھر اُن کو کولگام پولیس کے حوالے کرکے پھر سے مٹن جیل شٖت کیا، جبکہ امیرِحمزہ شاہ گزشتہ 3سال اور مفتی عبدالاحد 2سال سے جیل میں بند ہیں۔ اُن کو دوبارہ فرضی الزامات کے تحت کپواڑہ جیل منتقل کیا گیا۔ اس دوران تحریک حریت نے ہمہامہ حیدرپورہ اور ندرو کے علاقے میں پولیس زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے کئی وفود نے شکایت کی کہ پولیس نے ایک ہفتہ سے نوجوانوں کا قافیہ حیات تنگ کردیا ہے۔ اُن کو بھی تھانوں پر حاضری دینے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے اور ہمہامہ پولیس تھانے کے ذمہ دار آفیسران جوانوں اور تحریک نوازوں کو گالیاں دیتے ہیں۔