ریاستی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران یہ دلدوز انکشاف ہوا ہے کہ گزرے دس برسوں کے دوران ریاست میں دس لاکھ کنال زرعی اراضی کی حیثیت غیر قانونی طور پر تبدیل کرکے اسے غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا گیا ہے۔ اس طرح آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ زرعی معیشت کے تئیں ہماری بےحسی کا عالم یہ ہے کہ ہر دن پونے تین سو کنال زمین پر زرعی سرگرمیاں ختم کرکے انہیں غیر زرعی مقاصد کےلئے استعمال میں لاکر ریاستی معیشت کی بنیادوں کو اُکھاڑنے کی کاروائی جاری ہے اور اگر یہ کاروائی اسی رفتار کے ساتھ برقرار رہی تو وہ وقت دور نہیں ہوگا جب یہاں پر ہرطرف کنکریٹ کے پہاڑ تو نظر آئیں گے مگر زرعی فصلوں کی ہریالی دیکھنے کےلئے آنکھیں تر س جائینگی۔ اس ہولناک صورتحال کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اسمبلی کو مطلع کیا گیا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق سال2005-06میں جموںوکشمیر کے اندر ایک کروڑ70لاکھ کنال اراضی زرعی مقاصد کےلئے استعمال ہو رہی تھی مگر صرف دس برسوں کے اندریعنی 2015-16تک یہ رقبہ سکڑ کر تقریباً ایک کروڑ59ہزا رکنال تک پہنچ گئی ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ زرعی پیدوار میں کس قدر کمی پیش آئی ہوگی اور غذائی اجناس کی بیرون ریاست سے درآمد میں کس قدر اضافہ ہو ا ہوگا۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ1947ءسے قبل جموںوکشمیرنہ صرف زرعی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل تھا بلکہ یہاں سے کچھ مخصوص قسم کی زرعی پیدوار برآمد کی جاتی تھی۔ یاست کے پہلے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی حکومت نے نیا کشمیر پروگرام کے تحت جاگیر داروں سے زمینیں لیکر کاشتکاروں کی ملکیت میں دینے کا زرعی اصلاحات کا جو فیصلہ لیا تھا اس کے پس پردہ زرعی خود کفالت کا ہی تصور کا ر فرماء تھا، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اسی اراضی پر بستیوں کی بستیاں آباد ہو رہی ہیں اور اناج کا بیشتر حصہ بیرون ریاست سے درآمد کیا جاتا ہے اور اسکے مقابلہ میں زرعی اراضی پر خطیر رقوم صرف کرکے آبادیاں ترتیب دی جارہی ہیں۔ ریاست کے دو بڑے شہروں سرینگر اور جموں میں بستیوں کی حدود پھیل کر متصل اضلاع تک پہنچ گئی ہیں ۔ یہی حال دیگر کر ضلع ہیڈ کوارٹر وں کا بھی ہے۔جہاں تک سرینگر شہر کا تعلق ہے تو شہر اب اتنی وسعت پاچکا ہے کہ یہ جہاں جنوب میں پلوامہ ضلع کے حدود میں داخل ہوچکا ہے وہیں وسط میں بڈگام ،شمال میں بارہمولہ اور گاندربل اضلاع کے حدود میں شہر سرینگر کی کئی کالونیاں آباد ہوچکی ہیں۔غور طلب ہے کہ تمام کالونیاں زیادہ تر غیر قانونی اور بے ترتیب ہیں ۔ماسٹر پلان کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ایسی بھی کالونیاں ہیں جو نشیبی علاقوں میں قائم کی گئی ہیں اور جہاں معمولی بارش ہونے پر سیلاب کا خطرہ لاحق رہتا ہے ۔2014کے سیلاب نے ایسی بستیوں کی پوری نشاندہی کرکے نقشہ سامنے لایا۔کیا متعلقہ محکموں کے سربراہوں اور فیلڈ سٹاف سے پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ کالونیاں تعمیر کرنے کی اجازت لوگوں کو کس نے دی ۔اس ضمن میں سب سے زیادہ سرینگر اور جموں کی میونسپل کارپوریشنوںپر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جو شہر وںمیں لوگوں کو بلدیاتی سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیںلیکن جب رہائش ہی بے ڈھنگ ہو تو سہولیات کی امید کیا رکھنا ۔اس کے باوجود ان کالو نیوں میں سڑکیں تعمیر کرنے کے علاوہ بجلی اور پانی کی سپلائی فراہم کی جارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار ان کالو نیوں کو قانو نی طور صحیح مان رہی ہے۔یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس میں لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے ۔آبادی بڑھتی جارہی ہے۔اس صورتحال میں رہائشی مکانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا فطری امر ہے۔آخر لوگوں کو سر چھپانے کیلئے آشیانے تعمیر کرنے ہیں ،انہیں جہاں زمین ملی ،مکان تعمیر کیا ۔شہر اور اس کے مضافات میں آج کل جو کالونیاں تعمیر ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں ،وہاں کبھی لہلہاتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے۔اس طرح ہمیں مکانات تعمیر کرنے کیلئے اپنی زرعی اراضی کی قربانی دینا پڑرہی ہے حالانکہ ریاست میں واضح قانون موجود ہے جس کے تحت آبی اول زمین پر مکانوں کی تعمیر پر ممانعت ہے ۔اس کے باوجود یہ مکان کیسے تعمیر ہورہے ہیں ،ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی شایدضرورت نہیں۔عوامی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ اس رجحان کو ،جس کی وجہ سے اناج کی پیداوار میں دن بہ دن ریاست کی محتاجی میں اضافہ ہورہاہے ، کو بالواسطہ کیوں تقویت پہنچائی جارہی ہے کیونکہ ریاست میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران زرعی اراضی اس قدر سکڑ چکی ہے کہ اب شہر کے مضافات میں خال خال ہی کہیں دھان کے کھیت اور سبزیوں کی کیاریاں نظر آتی ہیں۔رہی سہی کسر ریلوے لائن اور ایکسپریس ہائی وے کی تعمیر نے پوری کردی ہے جس نے ہزاروں کنال زرعی اراضی کو نگل لیا ہے ۔اس طرح جتنی جتنی زمین کم ہوتی جائے گی ،ہم اناج کے ایک ایک دانے کیلئے بیرون ریاست سپلائی کے محتاج بنتے جائیں گے اور اگر اس عمل کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں ہوگاجب ہمارے پاس اپنی کوئی پیداوار نہ ہوگی بلکہ ہمیں بیرونی پیدوار پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے ۔اس پالیسی سے جہاں ہماری معیشت تباہ ہوکر رہے گی وہیں ہماری خود انحصاری کے خواب کا جنازہ نکلے گا ۔کیونکہ زرعی معیشت کے سکڑتے جموں وکشمیرمیں کوئی متبادل معیشت فروغ پذیر نہیں ہو پارہی ہے ۔ صنعتی فروغ کی تو بات ہی نہیں ،یہاں کی مقامی معیشتوں،جن میں دستکاریوں کو کلیدی اہمیت حاصل تھی، کا جنازہ بھی نکل چکاہے ۔ایسے میں زراعت ایک کلیدی شعبہ ہے جس پر تکیہ کیا جاسکتا تھا مگر شہر تو شہر دُور دَراز دیہات میں بھی زرعی اراضی تہس نہس ہورہی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ رہائشی کالونیاں ہر جگہ تعمیر ہوتی ہیں ۔آبادی ہر جگہ بڑھ رہی ہے ۔لوگوں کی دیہات سے قصبہ جات اور شہروں کی طرف نقل مکانی فطری عمل ہے لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کشمیر میں ہورہاہے۔سرکار کو بڑھتی آبادی کے پیش نظر لوگوں کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کیلئے زرعی اراضی کو ختم نہیں کرنا تھا بلکہ سرکار کے پاس اس اراضی کی کمی نہیں جہاںپر ایک منظم طریقہ پر رہائشی کالونیاں تعمیر کی جاسکتی تھیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا ،اس کا جواب بہتر انداز میں سرکار ہی دے سکتی ہے ۔ زرعی اراضی کی تمام اقسام پر تعمیرات پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حوالے اگر سرکار اس وقت نہیں جاگے گی تو پھر کبھی نہیں جاگ پائے گی، کیونکہ اس میدان میں بلڈروں اور زمین دلالوں کا ایک منظم مافیا، جنہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ، ہر ہر قدم پر سرگرم ہے۔ جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں بھی اس بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی پہلوئوںپر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنی چاہئے ۔لوگ ضرور عالیشان مکان بنائیں ۔انہیں آرام سے زندگی بسرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکو دائو پر لگا کر کریں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رہائشی تعمیرات کے وقت ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زرعی زمین محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ بنجر زمین اور کاہچرائی ہی رہائشی مقاصد کیلئے استعمال ہو۔اس منصوبہ پر جتنی جلدی عمل کیا جاتا ہے ،اتنا ہی بہتر رہے گا ،ورنہ اس کے بھیانک نتائج کیلئے ہمیں تیار رہنے پڑے گا۔
ترقیٔ معکوس کی انتہا
