ڈاکٹر عریف جامعی
ہر انسان کو اپنی بساط اور افتاد طبع کے مطابق آہ و بکا اور گریہ و زاری سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ معمولی اور غیر معمولی حالات انسان کی اس حالت میں فرق پیدا کرتے ہیں، لیکن حزن و ملال کی سسکیوں سے کسی فرد بشر کو رستگاری حاصل نہیں۔ تاہم اگر ایک طرف عام انسان اپنے غم کو نالوں کی زبان تو دیتا ہے، لیکن وہ غم کی شدت سے کچھ اس طرح مضمحل ہوجاتا ہے کہ وہ ’’نالوں میں جیسے دب جاتا ہے!‘‘ یعنی عام انسان غم کو صرف ظاہر یا مادے سے منسلک پاکر اس میں کوئی معنی پیدا نہیں کر پاتا۔ ظاہری یا مادی حالات میں فرق واقع ہوتے ہی عام انسان کا غم رفع ہوتا ہے اور اس کی ’’جوں کی توں حالت‘‘ یعنی اسٹیشن کو بحال ہوجاتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر طرح کے انسان کو اپنے اوپر غم کی حالت طاری رکھنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ عام انسان اس بات کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس سے اس بات کا تقاضا کیا جاسکتا ہے۔ بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو زندگی کی ساری رونق ختم ہوجائے گی اور معاشرے میں مثالیت پسندوں (آئیڈیلسٹس) کی بھرمار ہوجائے گی۔تاہم معاشرے میں ایسے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد ہمیشہ موجود رہتی ہے جو غم کو نہ صرف زندگی کا ایک حصہ بنالیتے ہیں بلکہ وہ غم کو فلسفۂ زندگی میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ افراد نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور ان کے سینوں میں جذبات کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر موجزن ہوتا ہے۔ یہ لوگ ان جذبات اور احساسات کا مختلف طریقوں سے اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس اظہار سے اگرچہ عام لوگ متاثر ہوتے رہتے ہیں، لیکن اپنے شدت احساسات کے اظہار سے جو لوگ اوروں کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں وہ سخنور اور شعراء ہیں۔ انہی کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ غم کے عام فہم واقعات اور حزن و ملال کی وارداتوں کو پوری انسانیت کی میراث کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ انسانیت کا منبع اور مخرج ایک ہی ہے، اس لئے انہیں اس کی ہمیشہ تلاش رہتی ہے۔ فلاسفۂ نو افلاطونیت کی رو سے انسانی روح ہمیشہ اپنے مرجع کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنی اصل کے ساتھ وصل تک یہ روح بے قرار رہتی ہے اور یہی بے قراری غم کے پیرائے میں انسان کو سوز و گداز میں مبتلا رکھتی ہے۔ مولانا رومی نے نہایت لطیف انداز میں اس جدائی کے غم کو ’’نے‘‘ کی ’’نیستاں‘‘ سے دوری سے تعبیر کیا ہے اور ’’نالوں‘‘ کو صدائے درد و سوز کہا ہے۔ مولانائے روم نے مثنوی کو کچھ اس طرح سے شروع کیا ہے:
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
کز نیستاں تامرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
یعنی ’’بانسری سے سن! کیا بیان کرتی ہے۔ اور جدائیوں کی (کیا) شکایت کرتی ہے؟ کہ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا ہے، میرے نالہ سے مرد و زن (سب) روتے ہیں۔‘‘
تاہم جس رونے کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، وہ کوئی عام سطح کا رونا نہیں ہے، بلکہ یہ رونے کی وہ قبیل ہے جس میں انسان اپنے اور کل کائنات کے وجود پر غور و فکر تو کرتا ہے، لیکن کچھ اس طرح تھک ہار جاتا ہے کہ اس کے حصے میں صرف ’’بے بسی کی سسکیاں‘‘ ہی آجاتی ہیں۔ ایک سطح پر قرآن نے بھی انسان کی اس ’’نظری بے بسی‘‘ (انٹلیکچول ہیلپلیسنیس) پر بات کی ہے: ’’پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں (رحمٰن کی تخلیق میں) کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نظر تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔‘‘(الملک، ۳-۴)
مرزا غالب اپنے نظری شدت احساس کا اظہار کس طرح کرتے ہیں، وہ ان کے اس مشہور شعر سے ہی عیاں ہے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میںتو کیا ہوتا
ظاہر ہے کہ یہاں غالب کو اپنے مبداء سے مغائر (غیر، الگ) ہونے کا غم ستا رہا ہے۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ نیستی اور ہستی کی فلسفیانہ بحث ہے جس میں غالب نیستی کو ترجیح دیتے معلوم ہورہے ہیں۔ یہاں پر اندازہ ہورہا ہے کہ یہ معدوم محض ہونے کی ایک توقع اور تمنا بھی ہے۔ اس سے اس بات کا پتہ بھی چل رہا ہے کہ چاہے تخلیق ہوتی یا نہ ہوتی، خالق پھر بھی موجود ہوتا!
تاہم ایسا بھی محسوس ہورہا ہے کہ غالب (انفرادی) عدم کے حق میں ہی آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ فطرت میں تحلیل ہوکر نیست کو گلے لگانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے وجود کو عدم میں گم کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں:
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
غالب اگرچہ خود کو نیستاں کا راہی ہی سمجھتے ہیں، لیکن وہ دنیا کو بھی بھرپور جینا چاہتے ہیں اور غم کو برت کر دکھانا چاہتے ہیں، کیونکہ غم ان کے نزدیک ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی بھی فرد بشر کو کوئی فرار حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رنج و الم کو اپنا معمول بنانے کے لئے مبتلائے عشق ہونا ضروری نہیں، عام سطح کے کار جہاں بھی انسان کو مغموم کرسکتے ہیں۔ اس لئے مغموم اور ملول رہنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ فقط ایک دھڑکتا ہوا حساس دل ہے۔ یہی دل اصل سے فرقت کی وجہ سے نالاں اور پریشان رہتا ہے:
غم اگرچہ جان گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
یہاں پر عشق اور محبت کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ اکثر ان الفاظ کو مترادفات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل محبت کا لفظ ’’حبہ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی بیج یا دانہ کے ہیں۔ یعنی دل کی زمین پر یہ دانہ پڑتے ہی ایک تناور شجر کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس پر محبت کے ایسے پھول کھلتے ہیں جو محب کے پورے وجود کو محبوب کی خوشبو سے مشکبار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملا محمد قاشانی کا کہنا ہے کہ ’’محبت مطالعۂ جمال کے لئے باطن کا میلان ہے۔‘‘اب جہاں تک عشق کا تعلق ہے تو یہ افراط و شدت محبت کا نام ہے۔ یعنی جب عشق عاشق کے دل میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا شجر وجود بھی معشوق کے جمال کی تجلّی میں محو ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ عاشق کا اپنا وجود ’’فنا‘‘ ہوجاتا ہے اور اس کا معشوق کے ساتھ آخری درجے تک اتصال ہوجاتا ہے۔ وصل کی اسی کیفیت میں عاشق سرشار ہوتا ہے اور اپنا ہر درد و غم بھول جاتا ہے۔ بقول غالب:
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
غالب اسی پیرائے میں مشت خاکی (انسان) کے حوصلے کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان ضعیف محض ہونے کے علی الرغم وجود کے بحر ناپیدا کنار کے ساتھ ایک ہونا چاہتا ہے۔ وصل کی یہ تمنا ہی اسے فراق میں سرگرم اور سرگرداں رکھتی ہے۔ یہی جدائی اس کے سوز عشق کا راز ہے۔ غالب کہتے ہیں:
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا؟
یہاں غالب نے منصور الحلاج کی کے ساز ’’انا الحق ‘‘کو صدائے ’’انا البحر‘‘ سے بدل کر معنی کی اتھاہ گہرائیوں کو چھوا ہے۔ یعنی غالب انسان کے جزو ضعیف ہونے کے باوجود اس کی ہمت کو داد دیتے ہیں کہ وہ شاہراہ عشق میں وصل کی خاطر کسی بھی انتہا کو چھو سکتا ہے۔ شاید انہی معانی کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
“ہم کناری” اور “بے کناری” کی تمنا ہی عاشق کو بار بار مار ڈالتی ہے اور پھر مر مر کے جی اٹھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کشمکش کے باوجود عاشق اس تمنا اور جستجو سے باز نہیں آتا۔ دراصل عاشق کا یہی سامان زیست ہوتا ہے کہ وہ وجود فانی کو وجود لافانی کی جستجو میں صرف کرے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشق کا ایک بار خاتمہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ کشمکش اور اضطراب کا ایک استعارہ بن جاتا ہے۔ غالب کہتے ہیں:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا!
یہاں سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ غالب مرنے (موت) کو ایک فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس لئے یہ وجود اور عدم کے درمیان ایک خط فاصل کا کام کرکے انسان کو متحرک اور فعال بھی رکھتی ہے اور حساس بھی۔ زندگی کی مدت اور مہلت تھوڑی ہونے کی وجہ سے انسان سہل انگاری سے بھی بچتا ہے اور اور کاہلی اور کسل مندی سے بھی چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔ قرآن نے اس نکتے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے: ’’جس (اللہ) نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘ (الملک، ۲)
غالب نے اسی سے ملتا جلتا خیال کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے:
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا؟
تاہم اس خیال کے باوجود غالب کا جنون عشق کم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اصل سے جدائی کی وجہ سے خود کو پا بہ جولاں سمجھتے ہیں۔ ان کا جنون عشق قید و بند سے کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ جنون اتنا شدید ہے کہ ان کے پاؤں کی زنجیریں بھی گرمئ عشق سے جل کر راکھ ہوجاتی ہیں۔ فرماتے ہیں:
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
اس کے باوجود غالب اپنے سوز عشق کو ’’نے‘‘کا رہین منت نہیں سمجھتے۔ وہ اپنی گریہ و زاری اور نالہ و فریاد کو اپنے آتشیں الفاظ کا جامہ پہنا کر ہر خاص و عام کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لئے برجستہ کہتے ہیں:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
ای میل۔ [email protected]