تباہی کی جانب بڑھتے ہوئے قدم

آج ذرا کھل کے بات ہوجائے ۔آج خام خیالوں سے باہر نکل کر سچائی کا سامنا ہو ہی جائے ۔کب تک ہم ریاکاری اور جھوٹی انا کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے اور خود کو بہترین شہری ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں گے ۔شوپیان میں دوشیزہ کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کا واقعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے تباہی کا راستہ اختیار کر دیا ہے ۔اب‌ ہماری بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں ۔اخلاقی طور پر نوجوان نسل اس طرح گر چکی ہے کہ کسی کی زندگی سے کھیلنا ایک مزاق لگتا ہے ۔رومانیت اور شہوت نے دل و دماغ پر اتنا غلبہ کیا ہے کہ فتور میں آکر کسی کی بھی عزت اچھالی جاتی ھے یہاں تک کہ معصوم پریوں کو ہاں میں ہاں ملانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ۔چرس گانجا اور دوسرے منشیات کا استعمال دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہا ہے ۔شرم وحیا کا مظہر کرنے والے نوجوانوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہ بدفعلی انجام دینے والے غیر نہیں بلکہ ہمارے اپنے نوجوان ہیں جو کسی کے بھائی ہیں اور کسی کے بیٹے ۔حد تو یہ ہے کہ جب بیٹا غلطی کرتا ہے تو والدین کو زیادہ دکھ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان کے بیٹے ہوتے ہیں ۔کوئی یہ نہیں سوچتا ہے کہ آج اگرمیرے بیٹے نے کسی کی بیٹی کو تنگ کیا ہے تو کل کوئی اور میری بیٹی کو تنگ کرے گا ۔
میرا ماننا ہے کہ آج سے دس بیس برس پہلے ہمارے جد‌و‌اجداد اور معلمین نے خود کو اور اپنے سے کم عمر متعلقین کو روحانی اور معاشرتی اقدار کو مضبوطی سے جوڑے رکھا تھا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور اقوام عالم نے اس سے بے پناہ فوائد حاصل کیے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جس کے نوجوانوں نے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر کے نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کیا بلکہ اپنے مذہبی، معاشرتی اور خاندانی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ رہی کسر ہماری فلمی دنیا نے پوری کر دی جو غیر محسوس طریقے سے ہماری نوجوان نسل کی غلط کردار سازی کر رہا ہے اور اس نقصان کا ادراک والدین کو تو بالکل نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے تعلیمی ادارے اخلاقی تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے جو اپنے دینی اور اخلاقی فرض سے ایسے غافل ہو چکے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں کہ جس بچی کی کفالت پر جنت کی بشارت ہے، اس کی تربیت کے لیے ہم نے کیا سامان مہیا کیا؟
والدین باخبر ہوکر بھی بے خبری کا ناٹک کر رہے ہیں کہ ان کی جوان اولادیں دن کا بیشتر حصہ موبائل فون اور انٹر نیٹ کی خرافات میں گزار دیتے ہیں، جہاں سب سے پہلے دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے پھر حرام کاری کو محبت کا نام دے کر نوجوان ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے ہیں اور نتائج آئے روز اخبارات میں ہماری نظروں سے گزرتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو والدین کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ قوموں کی زندگی میں زوال پیسے یا وسائل کی کمی سے نہیں بلکہ اخلاقی پستی کی وجہ سے آتا ہے۔جس معاشرے کا مرد بگڑ جائے، وہاں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے قرآن میں جہاں خالق کائنات نے عورتوں کو اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا وہیں پہلے مرد کو اپنی نگاہ نیچے رکھنے کا حکم دیا۔
  جانوروں کی دنیا میں بھی اتنی بے راہ روی نہیں ہے جتنی انسانوں کی اس آباد دنیا میں ہے ۔وادی کشمیر کو اگر چہ صوفیوں ،سنتوں ،درویشوں اور روحانی بزرگوں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے لیکن نئی پود نے اس روحانیت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے ۔جس طرح جانوروں کی دنیا میں مادہ کسی کے بھی بچوں کو جنم دے سکتی ہے یا جنسی تعلقات قائم کر سکتی ہے اسی طرح اب ہمارے سماج میں بھی ہونے لگا ہے ۔بیٹی باپ کے ساتھ محفوظ نہیں نہ ہی بھائی کے ہمراہ ۔یہ کونسی حرارت ہے جو  اتنا تپاتی ہے کہ باپ کی آنکھوں سے شفقت نہیں شہوت ابھرتی ہے ۔کشمیریوں کی تہزیبی شناخت ،انسانیت فہمی ،فراخدلی اور مہمان‌نوازی کے جذبے پر لگ رہے یہ زخم‌دھیرے دھیرے ناسور بن رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بن کر ہاتھ مل رہے ہیں ۔ہمارے تمدن میں آفاقیت تھی لیکن بتدریج یہ تمدن اب آلودہ ہورہا ہے۔ اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اسکے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے ، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔
     اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی ضروری ہے کہ قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی یا سماجی ہو، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔لیکن ہماری نوجوان کہاں جا رہے ہیں ۔کس سمت جارہے ہیں ،یہ کسی کو احساس نہیں ہے ۔ایک اچھے سماج کی تخلیق سب چاہتے ہیں لیکن اس تخلیق کی بنیاد پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے ۔آج کل کے نوجوانوں میں وہ اخلاقی اقدار کہاں ہیں کہ بزرگوں کا احترام کریں ،عورتوں کو عزت اور تحفظ دیں اور برائیوں کے خلاف مہم جو بنیں ۔کشمیریت پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں ۔کاروباری ملاوٹ سے باز نہیں آرہے ہیں ۔دوا فروش زہریلی ادویات بیچنے سے شرم محسوس نہیں کر رہے ہیں ۔مزدور کام کاج میں چوری کرتا ہے ۔ملازم رشوت کا عادی اورزمیندار دغا بازی کے شکار ہو‌رہے ۔ہیں کون سا طبقہ ایسا ہے جو ہمارے ماضی کی صحیح ‌عکاسی کررہا ہو۔ 
بحیثیت سماجی رکن یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اصلاحات کے اقدامات اٹھائیں اور تباہی کی اور بڑھتے قدم کو روکیں اور ٹوکیں تاکہ سماجی درندگی اور بے راہ روی کا قلع قمع ہوسکے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گھروں پر توجہ مرکوز کریں اور اصلاح شروع کریں ۔بصورت دیگر وہ دن دور نہیں جب کشمیریت اپنا وجود کھو دے گی اور کشمیر‌کی آن بان و شان تواریخ کے پنوں میں غائب ہوجائیگی ۔
)  رابطہ۔9906598163  (