یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مابعد جدید صورت حال نے جہاںوجودیت، عقلیت ،صارفیت، مادیت، جیسے انواع و اقسام نظریات و تصورات کو اپنی آغوش میں لیکر بال و پر پھیلانے کی سکت اور ہمت عطا کی وہیں حاشئے پر رکھے گئے عناصر ، جس کی نمائندہ اور پائندہ مثال عورت ہے، کو مرکز میں لا کھڑا کرنے کی جرأت بھی کی تاکہ صدیوں سے جس طبقہ کو ثانوی درجہ کی حیثیت سے نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے، اب دنیا کی نظروں کے سامنے آسکے۔ اور ادیب ، دانشور، قلمکار اور فن کار اس مظلوم طبقہ کی اہمیت اور افادیت کے اثبات میں اپنی کدو کاوش بروئے کار لائیں۔تاکہ ان کے تئیں روا رکھی گئی کمیوں کی تلافی ہوسکے۔ اس کوشش اور کاوش کے لیے عالمی سطح خصوصاََ مغرب میں ایک منضبط تحریک بلکہ تحریکیں معرض وجود آئیں جنہیں ’’تانیثیت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
تانیثیت (Feminism) بطور ایک نظریہ (Idealogy) اپنی شناخت قائم کرنا اصل میں مغرب کا عطیہ ہے۔ یہ نظریہ اب تقریباََ دو سو برس کا طویل سفر طے کرتے ہوئے ایک مسلمہ حقیقت کے بطور ہمارے درمیان اپنی انفرادیت کا حامل ہے۔یہ نظریہ عالمی سطح پر خصوصاََ مغربی معاشرے میں مرد حاوی معاشرے (Male Dominated Society) کے خلاف عورتوں کی سماجی، سیاسی ، اقتصادی، معاشرتی، تعلیمی،حقوق کی حصولیابی اور تحفظ کے لیے سامنے آیا۔
تانیثیت نے جہاں عورتوں کے تعلق سے روا رکھے جانے والے ظلم و بربریت اور استحصالی رویے کی سخت تذلیل و توہین کر کے انہیں سماج و معاشرے میںایک مستحکم ، پائیدار اور خود مختار وجود عطا کرنے کی کوشش کی وہیں اس تحریک نے غیر منطقی طور پر مردوں کے برابر مساوی حقوق کے مطالبات میں کچھ اس قدر شدت اختیار کی کہ اس تحریک کے منفی اثرات یا منفی پہلوئوں کا نمود کسی نہ کسی سطح پر ضرور دیکھنے کو ملا۔یہاں تک کہ ایک سطح پر آکربعض تانیثی مفکروں اور قلمکاروں نے خود ان منفی گوشوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ان سے اپنی خفگی بھی ظاہر کی۔تانیثیت نے عورت کے تعلق سے حیاتیاتی لازمیت (Biological Essentialism) سے نظریں چرا کر محض حقوق کے برابری کی بات کی جس سے بعد میں کافی منفی اثرات نمودار ہوئے۔حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مرد اور عورت جس طرح فطری اور حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے سے الگ الگ اور منفرد ہیں، اسی طرح بعض معاملات میںان کے حقوق میں بھی امتیاز ہوسکتا ہے۔شاید اسی لیے برابری کا دعوی کرنے والے مفکرین بھی آج تک انہیں برابر نہ کر سکے۔اللہ تعالیٰ نے اگرچہ مرد اور عورت کو برابری کے درجے کا متحمل کیا ہے ، لیکن صنفی لحاظ سے ان دونوں میں ایک واضح اور بین فرق بھی رکھا ہے ۔اگر Webester Dictionaryپر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی ان دونوں صنفوں کے مابین واضح فرق دیدنی ہوتا ہے۔ اس ڈکشنری میں "Female"کے معنی "Influnced by Male" کے دیے گئے ہیں ۔ اس ڈکشنری میں اس لفظ کی مزید وضاحت ان الفاظ میں رقم ہوئی ہے:
"They are betwixt a man and child some few have more of the man and many have more the child; but most are but in middle state."
یعنی ’’وہ مرد اور بچے کے درمیان ہیں، کچھ تو مردوں کی خصوصیات زیادہ رکھتی ہیں ، بہت سی بچگانہ مزاج کی زیادہ حامل ہیں، جب کہ زیادہ تر درمیانی حالے والی ہیں۔‘‘ ۱؎
ان دونوں صنفوں کے مابین یہ فرق طبی، طبعی، سماجی،نفسیاتی اور جذباتی سطح پر دیکھنے کو ملتا ہے اور اس فرق کو مٹانا یا زائل کرنانوع انسانی کے بس کی بات نہیں۔اس فرق کو تانیثی مفکروں نے بعد میں خوب اچھی طرح بھانپ لیا ۔اس تناظر میں انتہا پسند (Radical Feminism) کی مثال رقم کی جاسکتی ہے جس نے اپنی اوائل میں بچہ پیدا کرنے والی اور ان کی پرورش کوعورت کی کمزوری گردان کر اسے ایک استحصالی عنصر قرار دیا جیسے کہ فائراسٹون نے عورت کو بچہ پیدا کرنے کو کدو ہگنے سے تعبیر کیا۔انتہا پسند تانیثیت پسندوںنے مختلف اور متنوع طریقوں سے عورتوں کو اس کمزوری پر فتح پانے کا مشورہ بھی پیش کیا۔اور اس ضمن میں عورتوں کو مختلف تدابیر اختیار کرنے کا بھی مشورہ پیش کر کے مردوں کی غلامی سے نجات دلانا چاہی۔ جیسے کہ مانع حمل ادویات ، Child Care Centers، ٹیسٹ ٹیوب بیبیز وغیرہ ۔ لیکن بعد میں اس کے منفی نتائج کا ادراک کرکے خود چند انتہا پسند تانیثیت پسندوں نے اس سے راہ فرار اختیار کیا اورعورت کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کوان کا ایک اہم وصف جان کر اسے تہی دامنی کرنے کو عورتوں کے لیے کافی مضر پایا۔ بعد کے ریڈکل فیمنسٹوں جیسے کہ Andrieenne Rich،Atwood،Dworkin اور Corea نے بچہ پیدا کرنے کو عورت کی اہم اور لازمی طاقت سمجھ کر سابقہ تانیثی مفکروں پر اس حوالے سے سخت تنقید کی۔ یہی وجہ ہے یہ مفکر جدید ٹیکنالوجی سے مایوس اور خفا نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق جدید ٹیکنالوجی عورتوں سے ان کے ماں بننے کی طاقت چھین لینے کی کوشش کرتی ہے۔ Genea Corea تو اپنے ایک مضمون ’’ Egg Snatchers‘‘ میں بیضہ پر تجربہ کرنے والی سائنسی اور تکنیکی کوششوں کو عورتوں کے خلاف ایک ساز ش قرار دیتی ہے۔
ابتدامیں شدت پسند یا انتہا پسند تانیثیت پسندوں نے عورت کی انفردیت (Individualism) پر زور دیا تھا اور اس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے انہیں تنہا عورت کو Solo living کا مشورہ پیش کیا، عورت کی طبعیاتی کمزوریوں پر فتح پانے کے لیے سائنس سے مدد لینے کا جواز فراہم کیا، ہم جنس پرستی اور مانع حمل ادویات کی وکالت کرکے انہیں مردوں کے برابر کرنے کا لائحہ عمل پیش کیا۔ لیکن بعد میں ان مفروضات سے برآمدشدہ نتائج پر انہیں عورت کی شخصیت اور تشخص کے بے حد مضر جان کر ان سے کنارہ کشی کرنے کو ترجیح دے دی،یہاں تک کہ جس سائنس سے مدد لینے کی بات کی تھی، اسے بعد میں ایک سازش سے تعبیر کیا۔ لہٰذا بعض تانیثی مفکروںنے جلد ہی اس حقیقت کو پا لیا کہ ماں بننے سے انکار کر نا در حقیقت فطرت سے بغاوت کی ایک صورت ہے جو بہر صورت ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے بیضہ پر تجربہ کرنے والے ڈاکٹر رابرٹ ایڈورڑ(Robert Edweard) کو جنیا کوریا ایک ڈراکیولا کے روپ میں دیکھتی ہے۔ ان کے مطابق جس طرح ڈرکیولا خون کا پیاسا ہوتا ہے اور اس کی تشنگی نہیں جاتی، ٹھیک اسی طرح ایڈورڑ بھی بیضوں کا بھوکا ہے۔ ’’انسان اور تہذیب جدید‘‘ میں ڈاکٹر کاریل نے پہلے سے ہی عورت کو ان خدشات سے متنبہ کیا تھا چناچہ انہوںنے پہلے ہی اس حوالے سے لکھا تھا:
’’عورت کو ماں بننے سے گریزایک رکیک حرکت ، اسی لیے لڑکیوں کو عقلی اور مادی تربیت نہ دی جائے اور ان کے دلوں میں لڑکوں جیسی خواہشات کو اُبھرنے کا موقع دیا جائے۔ تربیت کرنے والوں کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ مرد اور عورت کی عقلی اور عضوی خصوصیات اور ان کے طبعی وظائف پر توجہ دیں۔ دونوں صنفوں میں بہت بڑا فرق ہے اسور اس فرق کو ایک متمدن دنیا کی تخلیق میں مدِ نظر رکھنا چاہیے۔‘‘
مرد و زن کے جملہ مسائل پر مہارت رکھنے والی ایک برطانوی خاتون Sylvia Hewlett اپنی کتاب "A Lesser Life" میں رقمطراز ہیں:
’’اس صدی کا جزبہ اور نعرہ یہ تھا کہ مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اب نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آجء پہلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد میں خواتین گھروں سے باہر کام کر رہی ہیں اور کچھ خواتین نے تو اونچے عہدوں تک رسائی حاصل کر لی ہے لیکن ان تمام ’’ترقی یافتہ تبدیلی‘‘ کے باوجود آج کی عورتوں کی اکثریت اپنی ماؤں کے مقابلے میں زیادہ معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔‘‘
مردوں کی محکومیت سے نجات دلانے کے لیے تانیثیت نے جو عورتوں کو معاش کے میدان میں گھسیٹ کر لایا اور انہیں مردوں سے الگ تنہا عورت Solo living کا جو مفروضہ پیش کیا ،تو ان کے گھناونے نتائج جلد ہی منظر عام پر آنے لگے۔ اس رجحان کے پیش نظر امریکہ اور یورپ میں ایک نئی طرز معاشرت نے فروغ پایا۔اندازہ لگایا جاتا ہے کہ امریکہ میں ۲۸ اور برطانیہ میں ۳۴ فیصد افراد تنہا جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوئڈن میں تو ایسے افراد کی تعداد ۴۷ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برسوں میں solo living ناسور ہندوستان کی سر زمین میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اس رجحان نے جس طرح تیزی کے ساتھ مغربی معاشرے میں خاندانی نظام اور اجتماعی زندگی کو درہم بھرہم کیا،اس کا رونا آج خود مغرب رو رہا ہے۔ معاشی طور پر خود کفیل خواتین خود اپنی مرضی کے مطابق رقم خرچ کرتی ہیں۔ ایسی خواتین مردوں کی ماتحتی، کسی ایک مرد کے ساتھ مستقل رہنے کے بجائے ایک جنسی خدمتگار (Sex worker)رکھنا بہتر سمجھتی ہیں ۔ مختلف اور متنوع طریقوں سے اپنی جنسی تسکین کا سامان بہم رکھتی ہیں۔ اس چیز نے مغرب میں جنسی انارکی کا ایک ایسا سیلاب لایا جسے اب روکنا محال نظر آتا ہے۔
اس طرح کے بہت سارے پہلوؤں پر بہت سارے تانیثی مفکروںنے توجہ دلائی جو ابتدا میں مساوات مردوزن کے لیے معاون اور ممدو تصورکئے جانے لگے لیکن بعد میں یہی خواتین کے حقوق اور تشخص کے لیے تخریب ثابت ہوئے۔لیکن یہاں طوالت کے بہ سبب صرف چند ایک پہلوؤں پر کچھ تانیثی مفکروں کی آراء و نظریات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اس طرح مردوں کے برابر حقوق کی مانگ ، گھریلوں ذمہ داریوں سے فرار یا کنارہ کشی ، تولیدی صفت کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرنا، پدرانہ نظام کے خلاف احتجاج اور بغاوت کا مادہ، حیاتیاتی امتیازات سے انکار وغیرہ ایسے چند پہلو ہیں جو تانیثیت نے ابتدا میں عورت کو مساوات کے منصب پر براجمان کرنے کے لیے پروان چڑھائے لیکن بعد کے تانیثی مفکروں نے جب ان پہلوؤں کے ظہور شدہ منفی اثرات کا مشاہدہ کیا تو انہوںنے ان پہلوؤں کی نشاندہی کرکے جب ان پر خط تنسیخ کھینچا تو اس میں اعتدال ،توازن اور اقتصاد پیدا ہوگیا۔
آج جب کہ مغرب کے فکر وفلسفے اور تصورات و نظریات ہر سو شرق وغرب میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنے تصورات بھی مرتب کرتے نظر آتے ہیںوہیں ان تصورات میں آزادی ٔنسواں یا ترقی ٔ نسواں کے تصور نے بھی شرق و غرب میں بھی اپنی کمند ڈال دی ہے۔ اگرچہ یہ تصور اور نظریہ انسانی فطرت سے بھی متصادم نظر آتا ہے لیکن پھر بھی اس تصور نے انسانیت کی ایک کثیر تعداد کو اپنی افکار وخیالات کے سیلاب میں تنکوں کی طرح بہا ڈالا۔ہر چند کہ اس تحریک اور تصور ونظریہ نے عورت کو آزادی کی نیلم پری اور حقوق کے سبز باغ دکھائے، لیکن حقیقت میں تانیثیت نے عورت کے وجود اور تشخص کو داؤ پر لگایا۔اس غیر اسلامی اور غیر فطری تصور اور نظریہ نے عورت کو ایک ایسے چوراہے پر لاکھڑا کیا جہاں وہ غیروں سے کیا گلہ ،اپنوں کے شر و فساد تک سے بھی محفوظ نہ رہ سکی۔اس تحریک اور فکر و فلسفے نے خاندانی نظام کی جڑیں کاٹ دیں اور یوں اجتماعی زندگی اور خاندانی نظام کے حسین و شاداب درخت پر خزاں کی موہوم چادر چڑھا دی۔خاندانی نظام کو سب و شتم کرکے دراصل اس نے سماجی ڈھانچے اور معاشرتی نظام کو کھوکھلا کر دیا۔اس طرح یہ تحریک وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ جھوٹے رنگوں کی ریزہ کاری ثابت ہوئی۔ کیوںکہ اس تصور اور نظریہ کی بنیاد صرف اور صرف عقل بلکہ مغرب کی مادہ پرست اور ہوس پرست عقل پر استوار تھی اور ازلی و ابدی صداقت اور پیغام یعنی وحی الٰہی کے عین مخالف۔
واضح رہے اگر عورت کو صحیح وقار، عزت و احترام ، چین و سکون اور عافیت و کامل تشخص مل سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ حکمتوں اور عافیتوں بھرا نظام حیات ہے۔ جو عقل کے بجائے وحی الٰہی کے اور حیات و کائنات کی اصل فطرت کے عین مطابق و موافق ہے۔ کیوںکہ بہر حال انسانی عقل محدود ہے۔ یہ چاہیے زندگی کے کتنے ہی گرہوںاور گتھیوں کو وا کرے یا سلجھائے تب بھی یہ نامکمل ہے ۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سارے مسائل اور معاملات کو اپنے بنائے گئے نظام حیات کے بجائے رسول اللہﷺ کے پیش کردہ اور بتائے گئے نظام حیات کے مطابق کریں۔ اسی میں ہماری کامیابی اور ترقی ہے اور اسی نظام میں عورت کی ترقی، بقا ، عافیت اور عزت کا راز بھی پنہاں ہے۔اور اس پاکیزہ نظام حیات کے زیرِ سائے ہی عورت زندگی گزار کر شبیریؑ صفت انسانوں کو اپنے کوکھ سے جنم دے سکتی ہے ؎
بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر
کہ در آغوش شبیریؑ بگیری
(مضمون نگارکا تعلق شرمال شوپیاں سے ہے اور آپ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیرکے شعبہ اردو میں ریسرچ سکالر ہیں)