سرینگر // بے ہنگم نئی بستوں کے قیام اور آبی پناہ گاہوں پر غیر قانونی تعمیرات کھڑا کرنے کے عمل سے جموں وکشمیر میں آبی زخائر سکڑ رہے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ان کی حفاظت کیلئے حکام کے پاس کوئی بھی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1992میں شہری علاقوں کی آبادی میں 34فیصد کا اضافہ ہواجو 2010میں 65اور اب 2020تک 70فیصد تک پہنچ گیا۔ وادی میں گزشتہ 48برسوں کے دوران55مربع کلو میٹر آبی ذخائر ختم کر کے اْن پر پختہ تعمیرات کھڑا کی گئی ہیںجبکہ شہر میں22 آبی ذخائر کو رہائشی کالونیوں کے نام پر ختم کیا جا چکا ہے۔ ماہرین ارضیات پہلے ہی اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ 2014کے تباہ کن سیلاب کی وجہ بھی انسان ہی بنا، کیونکہ سیلاب کے اسباب کے وجوہات میںجنگلات کی تباہی، آبی ذخائر میں ناجائز تجاوزات، کالونیوں کی بے ترتیبی اور غیر ذمہ دارانہ طور پرپھیلائو کے ساتھ ساتھ پہاڑی ڈھلانوں کاٹنا شامل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ان اسباب کی طرف دھیان نہیں دیا گیا تو آنے والے وقت میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ وادی میں آبی پرندوں کے قریب 9 آبی ذخائر موجود ہیں جن میں ہوکرسر ویٹ لینڈ 13.75مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ آبی ذخائر پر غیر قانونی قبضہ اور تعمیرات سے مہمان پرندوں کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے۔نارکرہ بڈگام پناہ گاہ 3.25مربع کلو میٹر پر پھیلاہوئی ہے۔ منی بگ 4.50مربع کلو میٹر پر جبکہ چھتلام 0.25مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ آبی ذخائر مسلسل سکڑ رہے ہیں۔میرگنڈ 400مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا تھا لیکن آبادی کا بڑے پیمانے پر پھیلائو اس کے سکڑنے کا سبب بنا۔ اجس 1.00مربع کلو میٹر ، شالہ بگ 1600مربع کلو میٹر ،ہائیگام 7.25مربع کلو میٹر،ملگام 4.50مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہ سب پنا ہ گاہیں ہر گزرتے وقت کے ساتھ آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے سکڑ رہی ہیں۔وادی کشمیر میں ایشیاء کی سب سے بڑی جھیل ولر سمیت چار مشہور آبی ذخائر بھی ہیں جن میں ڈل جھیل ،نگین اور جھیل مانسبل شامل ہیں۔ان کو بچانے کیلئے اگرچہ سرکار کی جانب سے کئی ایک ایکشن پروگرام بھی بنائے گئے لیکن ان پر ہوئی غیر قانی تعمیرات اور قبضے کو ہٹانے میں انتظامیہ اور سرکار کی کوششیں نہ ہونے کے برابر رہیں۔ایک تحقیق کے مطابق سرینگر جہلم کے گردونواح میں 1972تک 288.96 مربع کلو میٹر آبی ذخائر تھے جو اب سکڑ کر 266.45مربع کلو میٹر رہ گئے ہیں اور اس طرح سرینگر میں 22آبی ذخائر پچھلی کئی دہائیوں سے ختم ہوچکے ہیں۔کشمیر یونیورسٹی کے ماہرین نے آبی پناہ گاہوں کی اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ ہمارے لئے انتہائی ضروری ہیں ،یہ نہ صرف ہمیں سیلاب سے بچا سکتی ہیں بلکہ اچھا ماحول بھی فراہم کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب زیادہ پانی آتا ہے تویہ اس کو جذب کر لیتی ہیں اور جب پانی کم ہو جاتا ہے تو یہ ہمیں پانی بھی فراہم کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج سے کئی برس قبل جھیل ولر 120مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا تھا لیکن آج یہ 70مربع کلو میٹر سے بھی کم رہ گیا ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کی ایک تحقیق کے مطابق آبی پناہ گاہ ہوکرسر1996میں 18.73مربع کلو میٹر تھی جو سکڑ کر 12.8مربع کلو میٹر رہ گئی ہے اور باقی آبی ذخائر کا سکڑنابھی سرکار کی نااہلی اور لوگوں کے غلط اپروچ کی وجہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یاد ہے کہ بٹہ مالو ، بمنہ ، حیدرپورہ، ایچ ایم ٹی ، شالہ ٹینگ وغیرہ یہ سب آبی ذخائر ہوتے تھے اور مقامی لوگ وہاں مچھلیاں پکڑنے کیلئے بھی جاتے تھے جبکہ دودھ گنگا نالہ بھی آبی ذخائر ہی تھا۔لیکن ان آبی ذخائر کا کہیں پر وجود بھی باقی نہیں۔