بے ادب

 ولی محمد اور زرینہ خانم نے شام کا کھانا کھایا اور ٹی وی روم میں چلے گئے ۔ولی محمد نے ریموٹ کنٹرول سے دُور بیٹھے بیٹھے ٹی وی آن کردیا تو اسکرین پہ ایک ایکٹرس کی کافی عریاں تصویر حیاسوز اداکاری کے ساتھ نظر آنے لگی۔ زرینہ خانم نے لمحہ بھر کے لیے تیکھی نظروں سے اپنے شوہر محتر م کی طرف دیکھا تو ولی محمد نے فوراً چینل بدل دیا۔ دوسرے چینل پہ دو ماڈرن قسم کی عورتیں اور دو مرد حالات حاضر ہ پر اپنے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اینکر کے سوالوں کاانتظار کررہے تھے ۔یہ چاروں عورتیں اور مرد الگ الگ پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ۔اینکر نے سب سے پہلے بڑے کرخت لہجے میں ایک سفید ریش مرد سے سوال پوچھا ۔وہ سوال کا جواب دینے لگا ۔ابھی وہ دو ہی جملے بول پایا تھا کہ کہ سامنے دوسری طرف بیٹھی ایک خاتون چیختی ہوئی اُس کے بیان کی تردید کرنے لگی ۔اینکر نے بڑی مشکل سے اُسے چُپ کرایا اور اس طرح سفید ریش مرد نے بڑی مشکل سے اپنی بات پوری کردی ۔اینکر دوسری عورت سے مخاطب ہوا اور اُس سے سوال پوچھا ۔وہ بھی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگی ۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ دوسری طرف ایک تلک دھاری مرد نے اُس کو چُپ کرانے کی کوشش کی ۔اینکر کو پھر زور سے ان دونوں کو چُپ کرانے کے لیے چیخنا پڑا ۔غرضیکہ مباحثہ اپنے پورے آداب کے ساتھ مباحثہ نہ رہ کر ہنگامے کی صورت اختیار کرگیا ۔ولی محمد اور زرینہ خانم کا چھ سال کا بچّہ ننھا اصغر ماں ،باپ کے درمیان بیٹھا اسکو ل کی کاپی پہ انگریزی میں ہندسے لکھ رہا تھا ۔اُس نے ٹیلی ویژن کی طرف دیکھا اور بڑے متعجب انداز میں کہنے لگا
’’مماں ! پاپا! یہ کیسے لوگ ہیں ؟سبھی ایک ساتھ بولتے جارہے ہیں ۔کوئی کسی کی بات سُنتا ہی نہیں اور ایسے بول رہے ہیں لگتا ہے کہ جیسے لڑائی کررہے ہوں۔ ان کے سر اور میڈم نے ان کوادب سے بولنا نہیں سکھایا ہے کیا؟مجھے تو اسکول میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جب آپ سے کوئی بات کرے تو اُس کی بات دھیان سے سُنو‘‘
ولی محمد اور زرینہ خانم اپنے پیارے لاڈلے بچّے کی باتیں سُن کر زور سے ہنس پڑے اور اُس کے مخملیں گا لوں کا بوسہ لینے لگے۔ زرینہ خانم نے اصغر کو چھاتی سے لگاتے ہوئے کہا
’’آپ بہت اچھے ہو میرے جگر پارے!‘‘
 
٭٭٭٭
بابا غلام شاہ بادشاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532