سرینگر // ’’پریشان ہوں کہ اب اپنے گھر کی کفالت کیسے کروں ‘‘۔ یہ الفاظ اُس عمر رسیدہ خاتون کے ہیں جس کا گود لیا ہوا بیٹھا 18سال سے لاپتہ ہے اور یہ والدہ اُس کی تلاش کیلئے 72سال کی عمر میں بھی در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے ۔ آج پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی ہفتہ منایا جا رہا ہے اس دن نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج بلند کئے جاتے ہیں وہیں گمشدہ افراد کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ایک کنبہ مغل محلہ چھتہ بل سرینگر میں 72سالہ خدیجہ بیگم کا بھی ہے۔ اس کنبے کی پریشانیان بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں کیونکہ گھر میں کوئی بھی مرد نہیں ،جو اس کنبے کی کفالت کر سکے ۔خدیجہ بیگم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کئی سال قبل رنگریٹ میں رہائش پزیر اُن کی بہن فخری اور اُس کے خاوند عبدالرحیم کا انتقال ہو گیا جس کے بعد اُن کے اکلوتے بیٹے منظور احمد ولد عبدالرحیم گنائی کو وہ پرورش کیلئے گھر لے آئی تاکہ گود لیا ہوا یہ بیٹا بڑا ہو کر نہ صرف گھر کا سہارہ بنے بلکے اپنے چار خالہ ذاد بہنوں کی پرورش کر سکے ۔ منظور پانچ برس کا تھا جب اُس کے والدین اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے ۔سال2001میں رات کے قریب 11بجے نامعلوم فوجی اہلکاروں نے منظور کو گھر سے گرفتار کیا اور تب سے اُن کا کوئی بھی سراغ نہیں ملا ۔ تب اُس کی عمر 25برس تھی۔ 18برس تک پولیس تھانوں ، فوجی کیمپوں اور ہومن رائٹس کے دفاتروں میں بھی اپنی روئیداد سنائی لیکن مایوسی کے سواء کچھ نہیں ملا۔بیٹے کے لاپتہ ہونے کے غم میں میرا خاوند عبدالرحمان بٹ بلیڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گیا، خاوند کے فوت ہونے کے بعد گھر کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ۔گھر میں چار لڑکیوں اور ایک کمسن بچے کی پرورش میرے لئے ناممکن بن گئی، کبھی لاپتہ بیٹے کی تلاش تو کبھی گھر کا نظام چلانا ۔خدیجہ نے کہا کہ گھر کی حالت ایسی ہے کہ میری چار بیٹیاں گھر میں ہیں اور اُن میں سے ایک کی شادی نواکدل علاقے میں کی تھی مگر اُس کی بدقسمتی کہ ایک برس قبل اُس کا بھی طلاق ہوگیا۔ ایک بیٹی سکول میں ملازمت کر کے 2ہزار روپے کماتی ہے جس سے گھر کا نظام چلانا انتہائی مشکل ہے ۔اُس کا کہنا ہے کہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ صرف اے پی ڈی پی ہی بیماری میں اُن کی مدد کیلئے سامنے آتی ہے او ر باقی یہاں قائم کوئی بھی انسانی حقوق کا ادارہ اُن کی مدد کیلئے نہیں آیا ہے ۔