اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت ساری نعمتیں عطا کی ہیں ۔ ان ہی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت جو جنتی والدین کو عطا کی جاتی ہے، وہ نعمت بیٹی ہے مگر دور حاضر میں بھی ماضی کی طرح بیٹیوں کی عظمت اور اہمیت کو گھٹا کر پیش کیا جارہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ہمیں بیٹیوں کو بچانے کیلئے دیواروں اور چوراہوں پر لگے بورڈوں پر نعرے لکھنے پڑتے ہیں ۔جس وادی کو ہم صوفیوں،سنتوں،فقیروں اور مقدس ہستیوں کی سرزمین مانتے ہیں، اُسی سرزمین میں اب ہمیں شیطان اور راون جیسے لوگ مل رہے ہیں، جو آئے دن کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسلامی افکار سے بھرپور سرزمین کو جہنم ِزار بنانے میں پیش پیش ہیں ۔راقم کواس کا احساس اُس وقت ہوا، جب کسی ایمرجنسی میں ایک مقامی اسپتال میں جانا پڑا اورمیری نظر اسپتال کے دیوار پر لگے اُس بورڈ پر پڑی، جس پر موٹے الفاظ میں یہ عبارت لکھی تھی کہ "بیٹے کی آس میں بیٹیوں کی بَلی نہ چڑھائیں"۔ یہ تو معمولی بات لگتی ہے مگر اس کے پیچھے ایک اہم مسئلہ چھپا ہواہے کیونکہ جب تک نہ ایسے معاملات پیش آتے ہوں گے تب تک اسپتال والے ایسا بورڈ لگانے پر مجبور کیوں ہوگئے۔کہتے ہیں کہ لڑکیاں اپنے والدین کےلئے جنت کی ضامن بنتی ہیں تو پھرکیوں لڑکیوں کو جنم لینے سے پہلے ہی مار ڈالتے ہیں؟دوسری بات جو اسی اسپتال میں دیکھنے کو ملی کہ ایک عورت نے تیسری بیٹی کا جنم دیا تو اُس کے میکےوالےمعہ شوہر اسپتال میں زچہ و بچہ کو چھوڑ کربھاگ رہے تھے۔ وہ عورت بستر علالت پر رورہی تھی اورساتھ ہی میکے والے بھی۔جبکہ وہاں موجود وسرے لوگ بالکل چُپ چاپ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ میں نے تھوڑی سی ہمت دکھائی اور اُس مریضہ کے شوہر کو پکڑلیااور کہا بھائی کیا ہوا ہے؟ جو آپ ان کو چھوڑ کر جارہےہیں، تو اِسی اثنا میں ایک شخص نے مجھے دھکادے کر کہا کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا ہے، جاؤ اپنا کام کرو اور ہمارے سر مت چڑھو۔من کہتا تھا کہ اُس کی خوب دُھلائی کروں مگر موقع واردات پر لوگ اب مجھے ہی شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے اورکھسک جاتے تھے۔اب یہ روز کا معمول بن گیا ہے ۔یہ میری آنکھوں کے سامنے ایک معاملہ پیش آیا ۔نہ جانے ایسے کتنےواقعات روزانہ پیش آتے ہوں گے؟افسوس اس بات پر ہوا کہ ہم سماج میں رہ کر بھی اس جیسی برائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اور اِن برائیوں کے خلاف صف آراء نہیں ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسی بُرائیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ ہمیں اس پر سوچنا چاہیے کہ آیا بیٹی جننے سے کوئی مصیبت آرہی ہے؟ یا ہمیں بیٹی پیدا ہونے میں کوئی شرم محسوس ہورہی ہے؟ میں ان لوگوں سے دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو بیٹی پیدا ہونے میں کوئی شرم محسوس ہورہی ہے یا کسی مصیبت میں پڑنے کے خطرات لاحق ہیں تو آپ بھی کسی کی بیٹی سے شادی مت کیجئے، یاکسی باپ کے پاس کسی ثالث کو لڑکی کا ہاتھ مانگنے سے پرہیز کیجئے،کیونکہ آپ اُس سماج میں رہنا پسند کرتے ہیں جو سماج اسلامی افکار سے دور ہے، جس سماج میں رسول آخرالزمان حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بیٹی والوں کو بھی پہلے یہ جانچ لینا چاہیے کہ آیا ان کے پاس رشتہ لیکر جو آیا ہے، وہ دین سے وابستہ ہے کہ نہیں؟ان کے اخلاق اچھے ہیں کہ نہیں؟ ان کا رہن سہن اچھا ہے کہ نہیں؟سماج میں ان کاکوئی مقام ہے کہ نہیں؟ مگر اکثر والدین اس سے کوسوں دور رہتے ہیں اور صرف اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ کیا لڑکا نوکری کرتا ہے؟ روز کتنا کماتا ہے؟(چاہے وہ ناجائز یا غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ ہو) گاڑیاں کتنی ہیں؟باغات، کھیت وغیرہ تک کی جانچ کی جارہی ہے مگر لڑکا اور لڑکے کے گھر والے نماز پڑھتے ہیں؟ روزہ رکھتے ہیں کہ نہیں؟ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں کہ نہیں؟ایسا کوئی نہیں پوچھتا ہے، کیوں کہ اُن کو بھی لڑکے والوں کی دولت سے اپنی بیٹیوں کا سودا کرنا پسندہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس جگہ پر کھڑے ہیں جس جگہ پر دین کو سُبک سمجھا جارہا ہے۔جہاں عالم کو حقیر،جھپٹنے والےکو طاقت ور،غریب اور مفلس کو سماجی ناسور اور رفاقت کرنے والے کو لالچی سمجھا جارہا ہے۔ اسی لئے لوگ اب ایک دوسرے کو مدد کرنے سے کترا رہے ہیں اور مفلس لوگوں کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں ماضی سے ہی بیٹیوں کو شکار بنایا جارہا ہے؟کیوں انکو کوکھ ِ مادر میں ہی زندہ در گور کیا جارہا تھا اور بھی نہ جانے کیا کیا،کیا جارہا ہے؟اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دین اسلام سے دوری اختیارکررکھی ہے، ہم اسلام کو اُسی حد تک قبول کرتے ہیں، جس حد تک یہ ہمارے لئے کارآمد ہے۔ ہم خود غرض اور لالچی لوگ ہیں، جہاں اسلام ہمارے ہاضمہ سے باہر ہے ،وہاں ہم اس کی طرف منہ موڑکر آنکھیں بھی موند لیتے ہیں۔ اسلام نے بیٹیوں کو بھی بیٹوں جیسا جینے کا حق ادا کیا ہے، اُن کے برابر تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا ہے، ان کے برابر عزت کی حقدار ہیں مگر افسوس ایسا نہیں ہورہا ہے۔ ہمارے گھروں میں بیٹا ہونے کی صورت میں شادیانے کئے جارہے ہیں، صدقے بانٹے جارہے ہیں ،ہمسائیوں اور راہ چلتے مسافروں میں مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں، یہاں تک کہ اگراسپتال میں بیٹا پیدا ہوا ہے تو معالجوں، دائیوں اور وارڈ میں موجود تیمارداروں اور بیماروں میں بھی لڈو بانٹے جارہے ہیں اور جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ایوان زیرین سے ایوان بالا تک سکوت سا طاری ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی باہری ملک نے ہمارے ملک پر حملہ کرکے اس پر قبضہ جمایا ہے ،رشتہ داروں میں افسوس کی کیفیت،گھر والے ہاتھوں کو مَلتے ہیں، ماں باپ روتے ہیں، عوامی حلقوں میں بے چینی سی پائی جاتی ہے اور اسپتال وارڈوں میں یہی باتیں چلتی رہتی ہیں کہ اب یہاں کون رُکے گا۔ایک طرف شوہر کابھائی سردرد کا بہانہ جان چھُڑانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف ساس کمر میں ڈیسک ہونے کا بہانہ کرکے رفوچکر ہونا چاہتی ہے اور وہیں نند اپنے سسرال میں کسی کو بیمار بناکر پیش کرتی ہے اور بیچاری بہو یہ سب بہانے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوتی ہے اور کانوں سے سُن رہی ہوتی ہے ، سسرال والوں کی کھسر پُھسر دیکھ کر وہ چاہتی ہے کہ بیٹی کا گلہ گھونٹ لے، مگر اُس کو نو مہینوں کی سختی یاد آجاتی ہے اور وہ خود کاحوصلہ بڑھاتی ہے ،رہا شوہر وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔کبھی کبھار وہ بھی اپنے والدین کے ہاں میں ہاں ملاکر وہاں سے بھاگنا چاہتا ہے مگر بیوی کی معصومانہ نظریں اس کو ایسا کرنے سے روکتی ہیں، اُس کو اس ظالم زمانے یا یہ کہیں کہ ظالم معاشرے کی بعد میں طعنے سننے پڑتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ہمیں اس طرح کے روئے سے باز آنا چاہیے کیونکہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔یہ سوچنے کی بات ہے کہ جن لوگوں کو اپنی بیٹی پیدا ہونے سے ماتھے پر بل آتی ہے،وہ بھلا دوسروں کی بیٹیوں کو کیسے خوش رکھ سکتے ہیں۔ جن کے گھروں میں بیٹیاں پیدا ہونے سے صف ماتم بچھ رہا ہے ان کو یہ کیسے گوارا ہوجائے گا کہ اُن کے گھر میں دوسرے کی بیٹی خوش رہے۔ جب اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک تو دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھیں گے۔ کسی گھر میں بیٹی پیدا ہونے سے رونق آجاتی ہے اور وہ گھر ہمیشہ خوش وخرم رہ جاتا ہے، جس میں بیٹیاں ہوتی ہیں، وہ والدین واقعًا خوش قسمت ہیں، جن کی بیٹیاں ہوتی ہیں۔اس لیے ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے سب سے بہتر کیا ہے۔ ہمیں اس کےلئے تیار رہنا چاہیے کہ بورڈ پر بیٹی بچاو نعرے لکھنے کے بغیر بھی ہمیں خود اپنی بیٹیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی بیٹیوں کو بھی بچانا چاہئے اور یہ باتیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں غیر کے نعروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ اپنے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال پر عمل کرنے کی ٹھان لینی چاہیے اور یہ دل سے مان لینا چاہئے کہ آپ کے فرمان میں کسی بھی قسم کے شک کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ اگر آپ نے اس میں تھوڑا سا شک بھی کیا تو مان لیں کہ آپ روزِ آخرت عذاب کے مستحق ہیں۔اس لئے اے میری قوم !ذرا غور کریں کہ آیا ایک عورت کے بغیر یہ دنیا قائم رہ سکتی ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ نہیں! ایسا ممکن نہیں ہے۔میرے کہنے سے اگر کسی کو کوئی دلآزاری ہوئی ہوگی تومجھے معاف کیجئے گا۔
(رابطہ۔7006259067)