جموں و کشمیر یوٹی کے موجودہ لیفٹنٹ گورنر منو ج سنہا نے جب سے بطور ایل جی جموں و کشمیر یو ٹی کا عہدہ سنبھالا ہے ،اس کے بعد سے یوٹی میں بہت کچھ بدلتا دکھائی دے رہاہے۔ بدلائوکا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔عوام میںبھی کچھ بدلنے کی امیدیں بڑھی ہیں ، چاہے وہ یوٹی میں حال ہی میں ہوئے ضلع ترقیاتی کونسل کے پر امن چنائو ہوں ، یا طویل عرصہ بعد4 جی سروس کی شروعات ہو ۔ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں پھر ایسی بہاریں دیکھنے کی امیدیں ٹوٹنے لگی تھیں لیکن جب سے منوج سنہا جموں و کشمیر کے ایل جی ہیں تو کچھ امیدیں ضرور مسکرائی ہیں ، لیکن ابھی بھی ایل جی انتظامیہ سے کئی امیدیں وابسطہ ہیں ۔اسی سلسلہ میں سرحدی پٹی پر شب و روز گزارنے والے مکینوں کی امیدیں بھی بڑھنے لگی ہیں کہ شاید اب ہماری باری بھی آ جائے ۔تاہم سرحدی مکینوں کے مسائل اور مشکلات کی فہرست گنوانا قدر مشکل ہے لیکن اس بار سرحدی باشندگان بھی ڈیجیٹل انڈیا کے شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایل جی انتظامیہ سے امید کر رہے ہیں کہ اس علاقہ کو بھی سرکاری بینکوں کے برانچ مع اے ٹی ایم مشین سے نوازا جائے، جس کی کافی ضرورت محسوس کی جاری ہے ۔
یوٹی جموں و کشمیر کی سرمائی دار الحکومت جموں سے 250کلو میٹر کی دوری پر آباد سرحدی ضلع پونچھ کے بلاک منکوٹ میں گرامین بینک کے علاوہ کسی بھی بینک کی برانچ نہیں ہے جس کو لیکر مقامی لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ واضح رہے کہ ضلع پونچھ میں کل 14بلاک ہیں ، جبکہ بلاک منکوٹ تحصیل مینڈھر کے تحت آتا ہے ، جس کی کل آبادی 50ہزار سے زائد ہے ۔ پورے بلاک میں بینک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ چا ہے طلباء کی جماعت ہو ، ملازمین ہوں یا پھر سرکاری یا نجی ذرائع کے تحت پنشن لینے والے بزرگ حضرات ہی کیوںنہ ہوں۔ اسی سلسلہ میں بلاک منکوٹ کے تحت اوچھاد گاؤں کے رہنے والے خادم حسین کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں بینک نہ ہونے کی وجہ سے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب مہینے کے آخر میں میری پنشن آتی ہے تو میں بازار جاتا ہوں ،بینک پہنچنے تک مجھے میرے گھر سے دو گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے دیر ی بھی ہو جاتی ہے اور جب پہنچتا ہوں تو بینک بند ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرے دن مجھے جانا پڑتا ہے ، اوردوسرا دن بھی ضائع ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اتنی مجھے پنشن نہیں ملتی جتنا میرا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے‘‘۔
بلاک منکوٹ کے تحت گائوں کسبلاڑی کے باشندوں کا درد ہے کہ انہیں بینک میں جانے کے لیے ایک طرف سے 80 روپیہ کرایہ لگتا ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے دیر ہو جاتی ہے اور آگے بینک بند ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرے دن انہیںدوبارہ وہی محنت کرنی پڑتی ہے۔اسی سلسلہ میں ایک بزرگ خاتون با نی کا کہنا ہے ’’ میں سرکار سے اپیل کرتی ہوںکہ ہمارے علاقہ میں بھی تمام بینکوں کی برانچیں دستیاب کرائی جائیں‘‘۔ بلاک منکوٹ کے گاؤں سے آنے والے سائیں میر، جو دمہ کے مریض ہیں،کا کہنا ہے’’ میں گھر سے روز ایک گھنٹہ پیدل چل کر جاتا ہو ، پھر وہاں سے گاڑی لیتا ہوں اور پھر سو روپیہ کرایہ دے کر جاتا ہوں اور جب واپس آتا ہوں تودمہ کی وجہ سے میری سانسیں بند ہو نے لگتی ہیں اور بیمار ہو جاتا ہوں۔ جو ہزار روپے پنشن آتی ہے وہ ڈاکٹروں کو دے دیتا ہوں۔ میری بھی سرکار سے یہی اپیل ہے کہ ہمیں ایک جے کے بینک کی برانچ دی جائے‘‘۔ علاواہ ازیں بلاک منکوٹ میں رہنے والے جتنے بھی باشندے ہیں ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ہمیں جے کے بنک کی برانچ اور اے ٹی ایم مشین دی جائے تاکہ ہماری زندگی بھی آسان ہو جائے۔
واضح رہے کہ جموں وکشمیر بینک اس وقت جموں کشمیر کا سب سے بڑا بنک مانا جاتا ہے جس کی بنیاد یکم اکتوبر 1938 کو جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے جاری کردہ خط کے تحت کی گئی تھی جبکہ جموں کشمیر بینک نے 4 جولائی 1939 کو بینکاری کاروبار کا آغاز کیا اور اسے ملک میں ایک سرکاری بینک کی حیثیت سے اپنی نوعیت اور تشکیل کا پہلا بنک سمجھا جاتا تھا۔ وہیں سال 2000 میں جے اینڈ کے بینک نے لائف انشورنس اور اثاثہ جات کے انتظام کے کاروبار کے علاوہ غیر زندگی انشورنس اور جمع کے کاروبار میں بھی مختلف شکل دی تھی۔ بینک نے 2003 کے سال کے دوران ماسٹر کارڈ انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر گلوبل ایکسیس کارڈ جاری کیا۔سال 2004 کے دوران جے اینڈ کے بینک نے آئی سی آئی سی آئی بینک کے ساتھ اے ٹی ایم نیٹ ورک کا اشتراک کرنے پر اتفاق کیا۔ جبکہ سال -17 2016 کے دوران جے کے بنک نے 90 اے ٹی ایمز کا آغاز بھی کیا اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ، اور اتنا ہی نہیں بلکہ جے کے بنک کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ پورے جموں کشمیر میں جے کے بنک کی برانچیں موجود ہیں اور کئی گائوں بھی ایسے ہیں جن میں جموں و کشمیر بنک کی برانچز ہیں ،لیکن نہ جا نے ان سرحدی باشندوں سے جے کے بنک انتظامیہ کی کیا ناراضگی ہے کہ پورے بلاک میں کوئی بھی بینک نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے عوام کو مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم سرحدی بلاک منکوٹ کے باشندوںکی امیدیں ایک بار پھر ایل جی انتظامیہ سے وابستہ ہیں۔انہیں امید ہے کہ بہت جلد ان کی تکلیفیں دور ہونگیں اور وہ بھی ڈیجیٹل انڈیاکے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں گے۔ (چرخہ فیچرس)