جن لوگوں کو دن میں دو وقت کا کھانا نصیب ہوجاتا ہے ، وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر موجود لاکھوں افرادایسے بھی ہیں جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور وہ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو لوگ نمود و نمائش پر فخر محسوس کرتے ہیں اورخود نمائی اور اپنے آپ کو بڑا آدمی ظاہر کرنے کی کوشش میں پیسہ ضائع کرتے ہیں،اُنہیں اپنے اس وطیرہ پر شرم آنی چاہئے۔وہ اپنی دولت کی نمائش نہیں کررہے ہوتے ہیں بلکہ وہ دراصل اُن اموا ت پر جشن منارہے ہوتے ہیںجو بھوک اور افلاس کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔کووڈ وبائی دور میں بھوک اور افلاس کا یہ بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو اس وبائی بحران سے پہلے اچھی زندگی گزار رہے تھے ، اب وہ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔دنیا میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کا روزگاراس وبائی بحران کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے ، اور ان میں ایک اچھی خاصی تعدا د کو اب ذریعہ معاش کی عدم موجودگی میں بھوک کا سامنا ہے۔جیسا کہ جائز طور پر کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں غربت ایک ایسا جرم ہے جس کا تعلق امیروں سے ہے ، بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات کوصاحب ثروت لوگوں کے ذریعہ قتل تصورکیا جاسکتا ہے۔وہ ممالک جو ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں اور آبادیوں کو کھانا کھلانا بھول جاتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر قتل کا ارتکاب کررہے ہیں اور دنیا بھر میں بمشکل ہی ایسے ممالک ہیں جو یہ وحشی جرم نہیں کرتے ہیں۔ اگر یہ آپ کو اشتعال انگیزی لگتی ہے تو غربت سے بچاؤ کے لئے کام کرنے والی تنظیم آکسفیم کی رپورٹ پر نظر ڈالیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہر منٹ میں 11 افراد بھوک سے مر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر روز ہزاروں اموات بھوک کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ افسوسناک ہے۔ ہم اس لئے ان دردناک حقائق سے چشم پوشی اختیار کررہے ہیں کیونکہ ہم درد اور غم اندوہ کا احساس کھو چکے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کو مزید پڑھیں تو آپ کو معلوم پڑے گاکہ پچھلے سال کے مقابلے میں اموات کی یہ تعداد چھ گنا بڑھ چکی ہے۔ مزید یہ کہ قحط سالی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کووڈ اموات کو پچھاڑ دیتی ہیں جسکے نتیجہ میں فی منٹ میں صرف سات افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ بھوک سے فی منٹ ہلاکتوں کی تعداد11ہے۔ یہ اعدادوشمار یقینی طور پر انسانی دل کو دہلادینے والے ہیں لیکن کیا دنیا کے حاکموں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس حالت تک لانے کا کون ذمہ دار ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ عالمی طاقتیں صرف اسلحہ کی دوڑ میں لگی ہوئی تھیں اور انہوںنے عوامی فلاح وبہود کو فراموش کیاتھا۔کورونا نے سب کچھ ایکسپوژ کرکے رکھ دیا ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیںکہ 2019میں عالمی سطح پر جتنی رقم دفاعی بجٹ پر صرف کی گئی ،وہ فی کس عالمی آمدن کا 2.2فیصد بنتا ہے جو249ڈالر فی کس ہے۔ انسان کو انسان سے خطرہ ہے ۔انسانی جان ختم کرنے کیلئے ہم نے اپنی آمدن کا بڑا حصہ سامان حرب و ضرب پر صرف کیالیکن انسانی جان بچانے کیلئے کچھ نہ کیا حالانکہ یہ دنیا انسان کیلئے ہی تو ہے ۔دنیا کے ممالک اپنی سرحدوںکو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے دفاعی بجٹ بڑھا رہے ہیں لیکن ان سرحدوںکے اندر رہ رہے لوگوںکے بارے میں کیوں سو چا نہیں جارہا ہے ۔مسابقت کی یہ جاہلانہ دوڑ کب انسان کا پیچھے چھوڑے گی؟۔یہ سمجھنے والی بات ہے کہ دنیا کو ایک دوسرے سے خطرہ کیوںہے ۔کیوں امریکہ کو لگ رہا ہے کہ چین یا روس اس کو کھا جائے گا اور یوں چھوٹے ممالک کو ہر دم خطرہ رہتا ہے کہ کہیں امریکہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگ انہیں نگل نہ جائیں ۔جواب اس کا یہ ہے ہم انسانیت بھول چکے ہیں اور حرص و تمع ہم پر اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔جب نظام عدل قائم نہ ہوگا اور مادیت کا دبدبہ ہوگا تو غالب غلبہ پانے کی جستجو میں ہوگا جبکہ مغلوب پستا ہی چلا جائے گا۔یہی کچھ اس وقت دنیا میں ہورہا ہے ۔دنیا کو اگر خطرہ ہے تو وہ سرحدوں سے نہیں بلکہ عدم توازن ،ناانصافی اور ظلم وجبر سے ہے ۔غریبی اور امیری کے درمیان حائل دیوار مٹ جائے تو امتیاز ہی ختم ہوجائے گا۔پھر نہ دشمنی رہے گی اور نہ کوئی کسی کے خون کا پیاسا ہوگا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم دو وبائی بیماریوں سے دوچار ہیں۔ پہلی کووڈ اور دوسری بھوک ۔ ہم وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور مؤثر علاج تلاش کرنے سے پہلے ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن دوسری بیماری کا علاج ہمیں معلوم ہے۔ تھوڑا سا حصہ بانٹنے سے پوری دنیا میں لاکھوں جانیں بچ سکتی ہیں۔ لیکن کیا ہمیں واقعی کسی کی پرواہ ہے؟۔ ابھی بھی وقت ہے کہ انسان سنبھل جائے اور اپنی ترجیحات تبدیل کرے ۔انسانی بہبود کیلئے پیسے صرف کریں ۔نظام فطرت کے احیاء کو ترجیحات میں شامل کریں۔انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے پیسے صرف کریں۔انسانیت کو اپنا مذہب بنائیں ۔اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو دفاعی بجٹ کے نام پر یہ بم وبارود بنانے کی چنداں ضرورت نہ پڑے گی اور شاید ہی کوئی بھوک سے مرسکتا ہے لیکن اگر استحصالی نظام یوں ہی جاری رہا تو اگر ہم اس وباء سے بچ کر بھی نکلے ،آگے چل کریہ جہاں دنیا کی آدھی آبادی کو بھوک کھاجائے گی تو باقی بچی آدھی آبادی کوبم وباردو ہی کسی دن بھسم کرکے رکھ دیںگے۔