فرانسؔ ؔکے مردہ خانے میں ایک نہیں بلکہ کئی لاشیں پڑی ہیں ۔لاشوں کے اس ڈھیر میں انسانیت ،آزادی اور جمہوریت کی لاشیں نمایاں طور سے دکھائی دیتی ہیں ۔ان لاشوںکے درمیان ایک مزینـ چوبی تخت ہے ،جس پر ایک بوڑھا بڑی تمکنت سے براجماں ہے ۔اس کی سرخ خون خوار آنکھیں ایک واحد جسم پر مرکوز ہیں،یہ وہ جسم ہے جو ابھی تک لاش نہیں بن سکا ہے ۔اس میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے ۔ اس جسم کو لاش بنانے کے لئے کئی ظلم اور تشدد کی ترکیبیں اور اذیت و بربریت کے ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن پھر بھی وہ زندہ ہے ۔بوڑھا پاگلوں کی طرح اپنے تیز ناخنوں سے اُس جسم کو نوچتا ہے ،باربار پنجے گاڑ دیتا ہے اور پھر اُس جسم سے ٹپکنے والے خون کے ہر قطرے کو شراب میں گھول کر پیتا ہے۔گذشتہ ایک سو ستائیس برس سے اُس خونی اور بے رحم بوڑھے کا یہی شغل ہے ۔اس کوشش میں بذات خود اُس بوڑھے کے جسم پر کبھی کبھی مردنی چھا جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس وہ اکیلا مجروح جسم زندہ و تابندہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر چرکے کے ساتھ اُس میں نئی جان پڑتی جاتی ہے ۔اس تابندہ جسم کا نام جمیلہؔ ہے ۔ جمیلہ اس مادر وطن کا مقدس نام ہے، جسے عرفِ عام میں الجزائر ؔ کہتے ہیں ۔۔۔وہی الجزائر جس کی ہر صبح خونیں شفق سے طلوع ہوتی ہے اور جس کی ہر شام موت کے سائے میں بھیانک بن جاتی ہے ۔الجزائر کی آزادی کا یہ زندہ نشان فرانس کے مردہ خانے میں قید ہے ۔مردہ خانے سے باہر دنیا کے مہذب اور آزادی پسند انسانوں کا گروہ چیخ رہا ہے ،دہائی دے رہا ہے ۔۔۔جمیلہؔ کو باہر آنے دو ۔۔۔اُسے آزاد کردو۔۔۔جمیلہ ؔ کو اس کی زندگی دے دو ۔یکایک آواز بوڑھے کو چوکنا کردیتی ہے ۔۔۔۔یقیناً تم جمیلہ کے دشمن نہیں ہو بلکہ بذات خود اُس فرانس کے دشمن ہو جو کبھی انقلابی افکار اور کردار کا سرچشمہ رہا ہے ۔آج اُس فرانس ؔ کا دامن جمیلہ کے خون سے داغ دار ہورہا ہے اور آج وہی دامن فرانس کا کفن بن رہا ہے ۔
بوڑھا انصاف پسندوں کو قہر آلود نگاہوں سے گھورتا ہے اور چلانے لگتا ہے ۔دور ہوجائو ،یہاں تمہاری بات سنی نہیں جاسکتی ۔دیکھو اس مردہ خانے میں جونؔ آف آرک کی راکھ پڑی ہے ،یہ وہی فرانس ؔ ہے جس نے اپنی مجاہدہ جونؔ آف آرک کو نذر آتش کرنے میں دریغ نہیں کیا تو پھر جمیلہؔ کی بساط ہی کیا ہے ۔میں ہر دور میں مختلف صورتوں کے ساتھ اپنی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے مردہ خانے کو سجاتا رہا ہوں ۔میں وہی بوڑھا ہوں جس نے جون آف آرک کو زندہ آگ میں جلا دیا تھا اور آج الجزائر کی اس جمیلہ کو میں مردہ بناکر ہی چھوڑ وں گا ۔اتنے میں جمیلہؔ کی آواز مردہ خانے میں گونجتی ہے ۔یہ تیری خود فریبی ہے بُڈھے ،تو جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ آج تک الجزائر یوں کی حب الوطنی کو کچلنے کے لئے جو فوجی کاروائیاں کی گئیں اور ظلم و تشدد کے جن حربوں کو آزمایا گیا وہ ہر لحاظ سے بے کار ثابت ہوئے ہیں ۔پانچ لاکھ سے زیادہ محبانِ وطن تیری سنسناتی گولیوں سے چھلنی ہوکر اپنی سرزمین کو اپنے ہی خون سے سیراب کرچکے ہیں ۔اس لئے اُن کے ہونٹوں پر ایک ہی بات ہے کہ ہم ایک کروڑ الجزائری غلام بن کر زندہ رہنے پر ایک کروڑلاشیں بننے کو ترجیح دیں گے ،تمہارے پاس کوئی اور حربہ ہو تو وہ بھی آزماکر دیکھو۔
(اقتباس از ’’آزادی کی مشعل‘‘ سوانح حیات جمیلہؔ)
مختلف اقوام کے عقوبت خانوں میں تشدد اور ایذا ء رسانی کے مختلف حربے اور طریقے ہوتے ہیں جو شاذ و نادر ہی باہر کی دنیا کو معلوم پڑتے ہیں کیونکہ ایذاء سہنے والے بتانے کے لئے بہت کم کال کوٹھریوں سے باہر آتے ہیں ۔الجزائر کے لوگ جب فرانس کے مقابلہ پر جدوجہد آزادی کے لئے برسر پیکار تھے تو فرانس نے اُن کی تحریک آزادی کو کچلنے میں کوئی حربہ آزمائے بغیر نہیں چھوڑا ۔اُن کی درندگی اور سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجاہدہ جمیلہ بوپاشا کو عقوبت خانہ میں کئی طرح کی ایذا ء رسانی کے علاوہ ننگے بدن پر سگریٹ کے ٹوٹے بجائے جاتے تھے اور اُس کی اندام نہانی میں شراب کی بوتل ٹھونسی جاتی تھی،ایسے حیا سوز درندگی کے سلوک سہہ کر اور پانچ لاکھ مجاہدین کی قربانی دے کر آخر کار الجزائرؔ کو سن 1961ء میں آزادی نصیب ہوئی۔
کہتے ہیں کہ کشمیر کے قدآور لیڈر شیخ عبداللہ جب الجزائرکے اول صدر جناب بِن بیلا سے ملے اور دوران ملاقات جدوجہد آزادی کی بات چلی تو جناب بن بیلا ؔنے شیخ صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے وطن کو شخصی راج کے چنگل سے چھڑانے کے لئے آزادی کے قدموں میں اپنے خاندان کے کتنے لوگ بھینٹ چڑھائے یا قربان کئے ؟شیخ صاحب اُن کا منہ تکنے لگے اور جب اُن سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو صدر موصوف انہیں اپنے گھر کے پاس والے قبرستان پر لے گئے اور اپنے افراد خانہ اور نزدیکی رشتہ داروں قرابت داروں کی قبروں کی نشاندہی کرنے لگے جو بیس سے کم نہ تھیں۔ہاں!سن 1967ء میں انقلاب الجزائرپر جو انگریزی فلم بنی تھی اور نیلم ؔ سینما سری نگر میں نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی ، اس کو دیکھنے کے لئے شیخ صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ضرور آئے تھے ۔میںسمجھتا ہوں یہاں وہ ضرب المثل صادق آتی ہے بلکہ اس سلسلے میں شاعر کی بات کو بھی خاصا عمل دخل ہے کہ توانہ تفاری کا ہے کی بھٹیاری اور ؎
چہروں سے اُٹھاتا ہوں نقاب اس لئے اکثر
قاتل کو کہیں کوئی مسیحا نہ سمجھ لے
محمد شاہدؔ پٹھان
آپ کیا کہتے ہیں ۔کیا ہم سادہ دل اور بھولے بھالے لوگ تو نہیں ہیں؟ جب کہ ہمارا خون بہت ارزاں ہے ۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995