جموں// نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ انکی پارٹی آنے والے انتخابات میں تنہاحصہ لے گی۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ڈی پی کانگریس سرکار کی حمایت باہر سے دینے کا فیصلہ صرف ’ریاست بچانے ‘کیلئے لیا گیا تھا۔وہ شیر کشمیر بھون میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے۔اس موقع پر کانگریس کی خاتون لیڈر اور سابق ممبر اسمبلی سورن لتا نے نیشنل کانفرنس میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کرلی۔
این آئی اے کی دھمکی
انہوں نے کہا کہ بھاجپا نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں حکومت بنانے کی منصوبہ بندی دبئی اور لندن میں پاکستان کے کہنے پر کی گئی۔انکا کہنا تھا’’ صرف ہم ان میں شامل نہیں تھے، دوسری چھٹی (سجاد لون) کی گورنر کو واقعی لندن سے موصول ہوئی تھی۔عمر نے کہا جب انہوں نے رام مادھو سے ثبوت پیش کرنے کیلئے کہا تو وہ اپنے بیان سے ہی مکر گئے۔عمر نے کہا ’’ پی ڈی پی کانگریس مخلوط سرکار کے پاس اراکین کی تعداد موجود تھی، اس لئے اراکین کی خرید و فروخت کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی،اسکے بجائے بی جے پی کے حمایت والے گروپ کے پاس محض 28اراکین تھے،گورنر نے دعویٰ کیا کہ خریدوفروخت کی کوشش ہورہی تھی،بھاجپا بتائے اسے کہاں سے مطلوب اراکین ملنے والے تھے‘‘۔عمر نے کہا’’ میں اس بات کو وثوق سے کہتا ہوں کہ اراکین قانون سازیہ کو سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعہ دھمکیاں موصول ہوئیں، ایک ایم ایل اے سے کہا گیا کہ یا تو حکومت کا حصہ بنو یا پھر این آئی اے کے ذریعہ دو سال کے لئے گرفتاری کیلئے تیار رہیں‘‘۔عمر نے مزید کہا’’ ایک اور ایم ایل اے کو سی بی آئی کے ذریعہ دھمکیاں دی گئیں، کہ اسکے خلاف کیس کو دوبارہ کھولا جائیگا، یہ ایک مسئلہ ہے جو سامنے نہیں آنا چاہتے وہ چوروں کی طرف پیچھے کا دروازہ توڑ کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔عمر نے مزید کہا’’ 2014میں بھاجپا کے پاس صرف 26اراکین تھے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہیں 28اراکین والی پی ڈی پی سے سمجھوتہ کرنا پڑا، لیکن اب انہیں کیا مجبوری تھی کہ 2اراکین والی پارٹی سے وزیر اعلیٰ لایا جارہا تھا‘‘۔عمر نے کہا کہ اگر 2014میں بھاجپا کو سرنڈر کرنے کی مجبوری تھی تو اب سرنڈر کیوں کر کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ جب ریاست میں صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی، علاقائی نفرت بڑھنے لگی،اور ایک اچانک قابل غور صورتحال پیدا ہوئی جس کے ریاست پر منفی اثرات پڑنے والے تھے تو اس ساری پیشرفت کی وجہ سے وہ سخت اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے اور ان جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ لیاجن کے خلاف انہوں نے الیکشن لڑاتھا۔ ان کاکہناتھا’’نیشنل کانفرنس کیلئے یہ آسان نہیں تھاکہ وہ پی ڈی پی یا کانگریس کے ساتھ جائے ،ہمیں اس کے مستقبل میں نتائج کا سامنا کرناپڑسکتاہے لیکن ریاست کی فلاح و بہبود کیلئے ہم نے یہ فیصلہ لیا ‘‘۔
امیدواروں کی نامزدگی
عمر عبداللہ نے ریاست میں پارلیمانی چنائو کیساتھ ہی اسمبلی انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھاجپا کو چیلنج دیا کہ وہ ریاست میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار کو نامزد کرے۔انہوں نے کہا کہ بھاجپا کو جموں والوں نے حمایت دیکر 26نشستوں پر جتوایا، لیکن انہیں دھوکہ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بھاجپا چنائو کرانے سے کترارہی ہے اسی لئے وہ چنائو نہ کرانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور اسکے لئے مختلف بہانے تراشے جارہے ہیں، کیونکہ بھاجپا جانتی ہے کہ انہیں لوگ معاف نہیں کریں گے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ انکی پارٹی لوگوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے،’’ ہم نے امیدواروں کی فہرست بنانے کی شروعات کردی ہے،صرف ایک شرط ہے کہ مجھے ایسا امیدوار دو جو جیت سکتا ہے،کچھ نشستیں ایسی ہوسکتی ہیں جہاں انکی پارٹی کے جیتنے کے امکانات نہیں ہونگے، لیکن ایسی بھی نشستیں ہیں جو ہم لگاتار جیت رہے تھے، اور اب وقت آگیا ہے کہ ان نشستوں کو دوبارہ حاصل کیا جائے‘‘۔عمر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کسی کیساتھ انتخابی اتھاد نہیں کرے گی بلکہ تنہا چنائو لڑے گی اور اپنے بل پر انتخابات جیت لے گی۔
ریزروسیٹیں اور دیگر مسائل
عمر کاکہناتھا’’بی جے پی کے مہاجرین سے لیکر کشمیری مہاجر پنڈتوں کی بازآبادکاری، جموں کی قیادت اور لداخ کو مرکزکے زیر اختیار قرار دینے کے الیکشن کے وعدے سراب ثابت ہوئے ،جب پارٹی نے یہ سمجھ لیاکہ اس کیلئے لوگوں کے سامنے جانا مشکل ہے تواس نے سیٹوں کو ریزرو بناکرالیکٹورل اعدادوشمار تبدیل کرنے کی کوشش ،بی جے پی ریاست کے مخصوص قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیلئے گورنر کو استعمال کررہی ہے ،گورنر انتظامیہ نے حال ہی میں کئی ایسے فیصلے لئے ہیں جن میں قانونی ماہرین کی مشاورت ضروری تھی ،اگر بی جے پی میں ہمت ہے تو وہ ہمارا مقابلہ الیکشن کی جنگ میں کرے ‘‘۔انہوں نے کہاکہ پچھلے چار سال میں اس جماعت کو مذہب یا د نہیں آیا لیکن جیسے ہی لوک سبھا کے انتخابات کاوقت آیاتو اس نے تفریق پسند سیاست شروع کردی اور مندر کی بحث کو دوبارہ حرارت دی ۔ ان کاکہناتھا’’آپ (بی جے پی ) نے گجرات میں دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ تعمیر کیا لیکن ایک چھوٹا سا ( رام کا)مجسمہ تعمیر کرنا بھول گئے جس کا نام جذباتی حمایت حاصل کرنے کیلئے الیکشن میں استعمال کیاجارہاہے ،حکومت کے کچھ ہی عرصہ باقی رہنے کے دوران ’یہاں چلو۔ وہاں چلو‘کی ریس لگی ہوئی ہے تاکہ مندر کی حمایت میں لوگوں کو جمع کیاجاسکے لیکن یہ ایجنڈا پچھلے چار سال سے نہیں تھا‘‘۔انہوں نے کہاکہ کچھ ایسی جماعتیں ہیں جو لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں لیکن نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ہندو، مسلم ، سکھ اتحاد سے اقتدار حاصل کیا ۔ عمر کاکہناتھاکہ وہ دن چلے گئے جب لوگوں سے جذباتی طور پر ووٹ حاصل کئے گئے اور اب ووٹر آپ کی رپورٹ کارڈ کے بارے میں پوچھیں گے۔
مزید صوبے بنانے کا معاملہ
عمر نے کہا’’بی جے پی کے پاس لوگوں کو مذہب اور علاقے کے نام پر تقسیم کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،پارٹی نے لداخ کو مرکز کے زیر اختیار قرار دینے کا وعدہ کیا لیکن اب صوبائی درجہ پر منتقلی کرلی ہے،یہ حیران کن امر ہے کہ لداخ سے ممبر پارلیمنٹ نے لوک سبھااورپارٹی سے استعفیٰ دیا کیونکہ انہیں بھی بیوقوف بنایاگیاتھا‘‘۔عمر کاکہناتھاکہ اگر لوک سبھا کے چنائو کے دوران صوبائی درجہ کی بات ہوتی تو بی جے پی کا لداخ میں داخلہ نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہاکہ نیشنل کانفرنس کا علاقائی خود مختاری کا منصوبہ ریاست کی مجموعی ترقی کا بہترین حل ہے ۔