سرینگر // ٹریفک پولیس کی ناقص حکمت عملی کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شہر ودیہات میں نظام بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور محکمہ کے اہلکار جہاں قوانین کی خلاف ورزیاں دیکھتے ہیں وہاں آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور جہاں خلاف ورزیاں نہیں وہاں دھڑا دھڑ چالان کاٹے جا رہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محکمہ نے رواں سال جون کے مہینے تک ریاست میں 3,47,333 چالان کر کے لاکھوں روپے جرمانہ وصول کیا ہے۔ ریاست بھر میں اس وقت سڑکوں پر ٹریفک کا برا حال ہے، ٹریفک جام اورلوڈنگ ایک معمول بن چکا ہے جبکہ سڑکوں کے بیچو بیچ کھڑا کی گئی گاڑیوںکو ہٹانے میں بھی محکمہ بھری طرح سے ناکام ہے ،جموں اور سرینگر کے شہروں کی حالت ایسی ہے کہ اکثر وبیشتر مسافروں, سکولی بچیوں اور ملازمین کو ٹریفک جام کی وجہ سے ذہنی کوفت کا سامنا رہتا ہے جبکہ راہگیروں کو چلنے پھرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں ۔لیکن محکمہ کا دھیان لوگوں کی مشکلات کی طرف کم اور چالان کاٹنے کا ٹارگٹ مکمل کرنے کی فکر زیادہ ہے ۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ نئے آئی جی پی ٹریفک بسنت رتھ کی کمان سنبھالنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا تھا کہ شہرئوں اور قصبوں میں ٹریفک کا نظام بہتر ہو گا لیکن حالت ایسی ہے کہ ٹریفک کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے ۔محکمہ ٹریفک نے دو ماہ قبل یہ دعویٰ بڑے ہی زور وشور کے ساتھ کیا تھا کہ گاڑیوں میں خواتین کیلئے مخصوص سیٹوں سے مرد حضرات کا قبضہ چھوڑوایا جائے گا جبکہ اس دوران مسافر گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیٹروں کو وارننگ بھی جاری کی گئی تھی لیکن اس فیصلے پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔کے دھکے کھاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ محکمہ ٹریفک کے ناک کے نیچے ہو رہا ہے ۔اتنا ہی نہیں جموں کے پریڈ ، جیول چوک ، بس سٹینڈ ، گاندھی نگر ، بکرم چوک ، نڑوال ، جانی پور کے علاوہ سرینگر شہر کے ریڈنسی روڑ ، جہانگیر چوک ، گھنٹہ گھر ، مہاراجہ بازار، کرن نگر ، ڈلگیٹ ، بٹہ مالو ، ہری سنگھ ہائی ا سٹریٹ کے علاوہ دیگر مصروف ترین جگہوں پر ایک تو ابھی بھی چھاپڑی فروشوں کا قبضہ ہے وہیں من مرضی سے لوگ محکمہ کے اہلکاروں کی آنکھوں کے سامنے گاڑیوں کو کھڑا کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف ٹریفک جام لگ جاتا ہے بلکہ اس سے راہگیروں کو بھی دقتیں پیش آتی ہیںاور ٹریفک پولیس سٹی سرینگر کچھ بھی نہیں کر پا رہا ہے۔حال ہی میں ٹریفک پولیس میں جو تبادلے عمل میں لائے گئے ان کے بعد تو شہر میں ٹریفک کی صورتحال انتہائی بدتر ہوچکی ہیں۔