خالق کائنات نے اپنے بندوں کے خاطر دنیا کو بہترین زیب و زینت سے سجا کے رکھا ہے – جہاں کہیں نظر دوڑائی جائیں، بے پناہ خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں – ایسے مناظروں کی ڈیزائنگ بھی بڑی عجیب و غریب انداز سے کی گئی ہے جس سے دیکھ کر انسانی عقل حیران ہو کر رہ جاتی ہے- لیکن اس کی دوسری جانب دنیا کے دستور بھی بڑے عجیب و غریب ہیں – عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی انسان کسی بھی شعبے میں کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ چاہیے طب یا انجینئرنگ کے لیے منتخب ہو جائے، گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کرے، این ای ٹی یا جے آر ایف جیسے قومی مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرے، نوکری چاہئے کلاس فورتھ سے لیکر سیول سروسز تک کی ہو، کو حاصل کرے۔ تو دُنیا کی پرانی رسم و رواج یہی رہی ہے کہ اس کے اول سے آخر تک تمام اساتذہ کہتےہیں کہ یہ ہمارا طالب علم رہا ہے – مختلف تعلیمی ادارے ایسے شخص کو اپنے ساتھ جوڑ کر اس سے ادارے کی شان قرار دیتے ہیں اس پر فخر محسوس کرتے ہیں- اس کے رشتہ دار اس سے قریب آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوست فون کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر آپ کی ریفرینس دینا شروع کرتے ہیں۔ دور دراز کے رشتے بھی پاس آنے لگتے ہیں۔ جن سے کوئی واسطہ نہیں ،وہ بھی جہاں ہو سکیں دوست، رشتہ دار، پڑوسی وغیرہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں۔ دوکاندار، مزدور و دیگر ضروری پیشہ ورانہ ہنر سے وابستہ لوگ انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ صاحب کا حکم کب ملے کہ حکم کی تعمیل ہو جائے ۔ غرض سبھی لوگ انسانیت کے بجائے عزت، رتبہ و مقام کو معیار بنائے رکھیں ہوئے ہیں اور اِنہیں معیارات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ایسے شخص کے ارد گرد اپنا تانتا باندھے رکھتے ہیں۔
لیکن جب حالات اس کے مخالف ہو جائے اور قسمت ساتھ دینا چھوڑ دیں، ناکامی کے بادل منڈلانے لگے، بدقسمتی کی گرج سے بے موسم بارش ہو جائے، کوئی کام نہ ملے ، مفلسی کی حالت پیدا ہو جائے، بہترین لباس پہننا میسّر نہ ہو پائے ، زیب و زینت سے نکلنے کے حالات نظر نہیں آتے ہوں، تو دنیا کی ایک پرانی رسم و رواج یہاں بھی اپنا سایہ بنائے رکھتی ہے ۔ اساتذہ ذہن سے ہی یہ بدقسمت نام نکال دیتے ہیں جیسے کہ اس شخص کو کسی نے پڑھایا ہی نہیں ہو- تعلیمی ادارے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جیسے کہ اس نے ان اداروں سے تعلیم حاصل نہیں کی ہو- قریب سے قریب تر رشتے دار بھی ایک پل میں دور ہو جاتے ہیں- دور دراز کی تو بات ہی مت پوچھو۔ تمام رفیق بہت جلد اجنبیوں میں بدل جاتے ہیں، انہیں اب آنکھیں ملانا گوارا نہیں ہوتا ۔ اپنے سبھی احباب و اقارب پہنچاننے سے انکار کرتے ہیں۔
جہاں کہیں غلطی سے کسی نے ذکر کیا چھیڑی تو بات ہی ٹال دی جاتی ہے۔ مزدور لوگ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ جس کا گمان بھی نہیں ہوتا – دوکاندار اُدھار دینے کو تیار نہیں ہوتا- حتی کہ بیماری میں کوئی احسان کرنے کو تیار نہیں – جن کا مقروض ہوگا اُن کے پاس اب مزید انتظار کے لئے وقت نہیں ۔
غرض ہر طرف امید کے دروازے بند ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔ راستے بہت جلد تنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ زندگی مصیبت میں بدلنے لگتی ہے۔ پل پل ستانے لگتا ہے۔ یادیں کانٹوں کی طرح چُب جاتی ہے، تنہائی ڈسنے لگتی ہے۔ جس کا کبھی گمان بھی نہیں ہوتا وہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دھوپ، چھائوں میں اور چھائوں، آندھی میں بدل جاتی ہے۔ ہر طرف سنسان، ویران، ریگستان نظر آنے لگتا ہے۔
اے دُنیا کے مست انسان ! کیا تو صرف بنگلہ، گاڑی، سونا، زر و زمین رکھنے والوں کے ساتھ چلنا پسند کرتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے ساتھ چلنے پھرنے پر فخر محسوس کرتا ہے – جب کہ تیرے تکبر و گھمنڈ نے تجھے غریب و لاچار انسان کی سلام کو جواب دینا بھی گناہ ٹہھرایا ہے اور اُن سے اپنی نظریں ملانے کو منحوسیت سے تعبیر کر بیٹھا ہے – خدا کے لئے ایسے فقیرانہ زندگی کو حقیر نہ سمجھو کیوں کہ دنیا بے شک اس سے دور صحیح ہے، لیکن اللہ رب العالمین کی ذاتِ اقدس اس کے دل سے قطعاً دور نہیں بلکہ بے انتہا قریب ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ " (اور حقیقت تو یہ ہے کہ) جب تم وہ جگہ دیکھو گے تو تمہیں نعمتوں کا ایک جہان اور ایک بڑی سلطنت نظر آئے گی -" (الدھر: ۲۰)
یعنی دنیاوی طور فقیر ہونے کے باوجود جب ایسا شخص اپنے اعمال کے خیر سے جنت میں جائے گا تو وہ وہاں ایک عظیم شان و مقام رکھنے والی سلطنت کا مالک ہوگا –
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فقیر کو بلا کر یوں معذرت کرے گا جیسے انسان آپس میں ایک دوسرے سے معذرت کرتے ہیں۔ رب العالمیین ارشاد فرمائےگا " قسم ہے اپنی عزت و جلال کی! میں نے دنیا تجھ سے اس وجہ سے علیحدہ نہیں رکھی تھی کہ تو میرے نزدیک حقیر تھا بلکہ اس جہت سے کہ تجھ کو یہاں کرامت اور فضیلت دینی تھی میرے بندے! اب تو اِن (جہنمیوں کی) صفوں میں جا اور پہچان کہ جس نے تجھ کو دنیا میں میرے واسطے (کچھ) کِھلایا ہو یا (کوئی کپڑا) پہنایا ہو اور اُس کی غرض سوائے میری رضا (حاصل کرنے) کے اور کچھ نہ ہو تو تُو اس کا ہاتھ پکڑ لے ( اور اس کو جنت میں لے جا) اس کا میں نے تجھ کو اختیار دے دیا۔ اور اس وقت (جہنمی) لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ پسینہ منہ تک آیا ہوا ہوگا، یہ شخص صفوں کو چیرتا ہوا جائے گا اور دیکھے گا کہ کس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، جسے ایسا دیکھے گا اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا -" (ابن حبان) احیاء العلوم، کتاب الفقر و الزہد، ۴/۲۴۳
سورۃ ”الم نشرح“ کی یہ آیت ' انا مع العسر الیسرا تمام بے بس و بے سہارا مسلمانوں کے لئے ایک امید اور حوصلہ ہے – ایسا لگتا ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو حوصلہ دے رہا ہے کہ اے میرے بندے ! فکر نہ کر ہر مشکلات کے بعد آسانی ہے ۔ یہ اُس سے بڑھ کر ہے جس طرح ایک والدین اپنے بچے کو کل کی امید کے ساتھ حوصلہ دے کر مستقبل کی خوشی کے لئے دلاسہ دے رہے ہیں –
الغرض جب سارے راستے بند ہوتے ہوئے نظر آرہے ہوں – اپنی یہ زندگی کی کشتی کنارے لگنے کی امید باقی نہ بچی ہو، کوئی یارو مددگار بھی نظر نہ آرہا ہو اور سارے احباب و اقارب بےکار سمجھ کر چھوڑ جائيں ۔ اپنے آس پاس آنسو پونچھنے والا کوئی نہ ہو، غم کو سمجھنے والا کوئی نہ ہو اور دل کے اس درد کو محسوس کرنے والا کوئی نہ ہو تو عین اُس وقت اللہ رب العزت امید کی ایک کرن بن کر اس آیت کی صورت میں اپنے بندے کو حوصلہ دیتے ہوئےفرماتا ہے اے میرے بندے ! صبر رکھو ” بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے “۔
درحقیقت غم و پریشانیاں اور مصیبت و مشکلات تو زندگی کا ایک حصّہ ہیں جو آتی جاتی رہتی ہے ۔ مشکل وقت دراصل بخشش کا ذریعہ ہے۔ اللہ مشکل وقت میں ہی نظر آتا ہے ورنہ خوشحال زندگی میں ہم اپنے مالک حقیقی سے بہت دور نکل چلے آتے ہیں –
کروسن لولاب، کپوارہ
رابطہ- 9797859836