والدین کے لئے اولاد، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے ۔شادی کے بعد ہر میاں بیوی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلد سے جلداُن کی گود بھر جائیں اور وہ ماں باپ کہلا نے کا حق پائیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر اس معاملے میں زیادہ تاخیر ہوجاتی ہے تو سو جتن کئے جاتے ہیں ،روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں ،منتیں مانگتے ہیںاورنہ جانے کیا کیا کرتے رہتے ہیںاور پھرجب اللہ تعالیٰ اُنہیںاس نعمت سے سرفراز فر مادیتا ہے تو وہ پھولے نہیں سماتے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بچے گلشن کے ایسے پھول ہوتے ہیں جو اللہ کو بھی پیارے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن میںارشاد فرماتا ہے کہ’’ مال و اولاد دنیا وی زندگی کے لیے زینت ہیں‘‘ ۔اولاد کی وجہ سے گھر میں خیر وبرکت آتی ہے ،اسکی وجہ سے خاندان کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔مگر یاد رکھئے کہ بچے کی ولادت والدین کے لئے مسرتوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری ذمہ داریاں بھی ڈال دیتی ہیں،جنہیں پورا کرنا ہر والدین کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے۔مناسب توجہ ،ہمدردی ،شفقت،پیارو محبت اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کا حق ہے ۔اس لئے اُسے ان کا حق ضرور دیجئے ،مگر اب یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کے پیار و محبت میںیر غمال ہوکر حد سے زیادہ تجاوز تو نہیں کرتے ہیںاور پھر طرح طرح کے مشکلات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔والدین کے فرائض میں اولاد کی تربیت کو اولین درجہ دیا گیا ہے کیونکہ اگر والدین اپنے بچے کی تربیت صحیح ڈھنگ اور دینی سانچے میں نہیں کرتے ہیںتو ایک نسل برباد ہوجاتی ہے۔دراصل والدین کیلئے اولاد اُس پاک زمین جیسی ہوتی ہے ،اس میں جو کچھ بوئے گا وہی اُگے گا ۔اگر نیکی اور اخلاقی تہذیب کا بیج بوئیں گے تو اولاد بھی سعادتوں کی حامل ہوگی ۔نیک نیتی اور خوش دلی سے اس کو پالنا پوسنا ،شفقتوں اور محبتوں کا برتاؤ کرنا ،ہمدردی اور دلسوزی سے اسے لکھنا، پڑھا نا سکھانا،تدریج سے پسندیدہ عادات ڈلوانا ، آداب زندگی بتانا، مذہبی طورطریقوں سے واقف کرانا ، انکی صحت و عافیت اور ترقی وکامرانی کی فکر کرنا،یہ سب وہ ذمہ داریاں ہیں جو بچے کے ضمن میں والدین پر عائد ہوتی ہیں ۔لیکن ان تمام ذمہ داریوں میں صحت کا تحفظ نہایت ضروری ہے ۔ مقولہ ہے کہ صحت ہزار نعمت ہے۔ جب صحت صحیح ہوگی تو ہر کام درست ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ہر بالغ فرد اپنی صحت کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے ،لیکن بچوں کے صحت کی حفاظت والدین کی ذمہ داری ہے کیونکہ خدا کے بعد ہر بچے کے اصل مربی والدین ہی ہوا کرتے ہیں ،اس لئے ہر والدین پر لازم ہے کہ بچے کی صحت برقرار رکھنے والے اصول و تدابیر سے آگاہی حاصل کرے ۔طبی دنیا کا مقولہ ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
مختلف موقعوںپر بچوں کے ساتھ والدین کی بے احتیاطی سے بچوں کے اندر بُری خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں ،جس کا خمیازہ اُنہیں خود بھگتنا پڑتا ہے ۔کئی بار ڈاکٹروں کو دکھا نے کے بعد بھی بچوں میںوہ عادتیں دور نہیں ہوتیں۔ جیسے کہ کچھ مائیں اپنی سستی کی وجہ سے بچوں کو پیشاب یا قضائے حاجت کی عادت بچپن ہی سے نہیں ڈالتیں، جس کی وجہ سے بچوں کو بستر پر ہی پیشاب پھیرنے اور پاخانہ کرنے کی عادت پڑجاتی ہے ،جس کی وجہ سے بچہ ِجلدی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور جرا ثیم و بدبو کی کثرت سے اُس کی دماغ کی رگیں کمزور پڑ جاتی ہیں، اُس کی شخصیت متوازن نہیں رہتی اور وہ بہت ساری پیچیدگیوںکا شکار ہوجاتا ہے ۔ایسے میں والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کو بچپن ہی سے استنجا کرنے کی عادت ڈالیں، چھوٹے بچوں کو پیشاب یا حاجتِ بشری سے فراغت کرانے کے لیے ،کموڈ یا ایسا کوئی دیگر برتن استعمال کریںجو اس کے موزون ہو۔دور ِحاضر کا ایک اور المیہ ہے کہ مائیں اپنی سہولت کے لیے بچے کو ہگس،نیپی یا پیمپرس لگا دیتی ہیں،جس سے بچے کو کموڈ یا فلش پربیٹھ کر پیشاب کر نے کی بجائے کپڑے پہنے پہنے قضائے حاجت کی عادت پڑ جاتی ہے، جو چھ سات سال تک بھی پیچھا نہیں چھوڑتی ۔یہ بچے کے لئے بہت ہی نقصان دہ ہے۔ بچے کی جلد سرخ ہوجاتی ہے ،اس پر خارش ہوجاتی ہے ، بعض صورتوں میں ایسی خراب ہوجاتی ہے کہ عمر بھر ٹھیک نہیں ہوجاتی ۔
پیمپر اور نیپی لگانے سے بچوں کے دونوں ٹانگوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ ہوجاتا ہے ،جس سے چال ڈال پر اثر پڑتا ہے اور وہ بھدی ہوجاتی ہے۔ پیمپر لگانے سے جنسی اعضا ء کی نشو ونما بھی متاثر ہوجاتی ہے، خصوصا لڑکوں کا عضو چھوٹا ہوجاتا ہے اور بانجھ پن کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے ۔
دورِ عصر میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بچہ نہ روئے اور نہ جلد سو جائے یانیندمیں پریشان نہ کرے۔ اس کے لئے مائیں بچے کو بوتل سے دودھ پینے اور انگوٹھا چوسنے کی عادت لگا دیتی ہیں، کچھ دیرکے لیے تو بہت خوشی ہوتی اور بچہ روتا بھی نہیں اور آسانی سے سو بھی جاتا ہے لیکن بعد میں اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انگوٹھا چوسنے کی وجہ سے بچے کا تالو فراخ ہوجاتا ہے، ان کے دانتوں کی شیپ اکثر خراب ہوجاتی ہے، جس سے بچوں کی خوبصورتی متاثرہو جاتی ہے، اسی طرح کچھ مائیں اپنی باڈی کو ِسلیم رکھنے کے لیے بچوںکو اپنا دودھ نہیں پلاتیںاور فیڈر کا استعمال کرتی ہیں،جو بہت ہی خراب عادت ہے۔ خدارا ! ایسا ہرگز نہ کریں کیوں کہ ماں کے دودھ کا اثر بڑھا پے تک رہتا ہے ۔ ماں کے دودھ میں وہ طاقت ہے ،جو دنیا کی کسی چیز میں نہیں، فیڈر سے دودھ پینے والے بچوں کی بہ نسبت ماں کا دودھ پینے والے بچے کئی گنازیادہ طاقتور ، صحت مند ،ذہین اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔اس لئے اللہ نے قرآن میں بھی دو سال تک بچوں کو دودھ پلا نے کاحکم دیا ہے ۔اسی طرح بچوں کے دانت نکلنے کے ایام میں والدین کو بہت زیادہ احتیاط برتنا چاہئے کیوں کہ ان دنوں بچوں کے اندر مختلف قسم کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثلا چڑ چڑاہٹ ، بے چینی ،بھوک کم لگنا ،دست وغیرہ کا ہونا، یہ تمام تکلیفیں عارضی ہوتی ہیں اور ایسا صرف چند بچوں میں ہوتا ہے ۔اس لیے والدین کو گھبرانا نہیں چاہئے ۔ دانت جب مسوڑھوں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ،تو مسوڑھوںمیں ہلکی سی سوزش اور جلن ہوتی ہے، اگر بچوں کو دانت نکلتے وقت تیز بخار، کھانسی،اور اسہال ہو جائیں تو ڈاکٹر سے مشورہ لیں ۔ دانت نکلتے وقت بچوں کو سخت چیزچبانے سے سکون ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہاتھ آنے والی ہر چیز کومنہ میں لے لیتے ہیں اور یہی فعل ان کے لئے بہت سی بیماریوں کی وجہ بن جاتی ہے۔
اسی طرح بچوں کے دودھ کے دانتوں کا بھی خیال رکھنا والدین پر لازمی ہے کیوں کہ بچے خود صحیح طور پر ان کی حفاظت اور افادیت کو نہیں سمجھ سکتے ،ان دنوں بچوں کو دودھ کے ذائقہ والی میٹھی چیز یںمثلا چاکلیٹ ، کولڈرنکس وغیرہ بہت اچھی لگتی ہیں ۔ اگرچہ اسکی عادت چھڑانا بہت مشکل کام ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ اس لئے دھیان رکھیں کہ ان مرحلوں میں بچوں کے دانت خراب نہ ہونے پا ئیںکیوں کہ خراب ہوجانے کے بعد نکلنے والے دانت بھی خراب ہی نکلتے ہیں اور بسا اوقات جڑوا دانت بھی نکل آتے ہیں، جس سے بچوں کے چہرے کی خوبصورتی پر اثر پڑتا ہے ۔نیز بچوں کو وقت پر دودھ پلانا یا کھا نا کھلانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ وقت کا عادی بن جائیںاور تندرست رہیں۔ابتدائی عمر میں بچے اکثر چلتے ہوئے گِر جاتے ہیں ،اُنہیں سہارا دینے کے بجائے خود سے اٹھنے کو ترجیح دیجئے البتہ یہ ضرور خیال رکھیں کہ چوٹ نہ آجائے۔ان کے ننھے قدموںکو اعتماد بخشیں،بے جا روک ٹوک نہ کریں۔عموماً ڈیڑھ دو سال کا بچہ تنہا کھیلنا پسند کرتا ہے۔عموماً مائیں اپنے بچوں کو بے جا لاڈ پیار سے بگاڑ دیتی ہیں ،جس سے وہ کسی کام کے نہیںرہ جاتے ہیں۔ہاں! آپ اپنے بچے پر بھر پور توجہ دیجئے لیکن اعتدال کے ساتھ ،کیونکہ میانہ روی اور اعتدال پر پوری کائنات کا نظام ہے۔
البرکات اسلامک انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ