! بچوں کا میلان دیکھیں | اپنی خواہشات نہ تھونپیں

چندروز قبل بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے بارہویںجماعت کے امتحان کے نتائج جیسے ہی منظر عام پر لائے تو سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پہ چہار سُو لوگ ایک دوسرے کو مبار ک بادی کے پیغامات دینے شروع ہو گئے ۔اس امتحان میںبھی حسب روایت ایک بار پھر لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اچھے نمبرات حاصل کیے۔مجموعی طور پر یہ نتایج انتہائی حوصلہ افزا لگ رہے ہیں ۔
مشکل حالات کے باوجود جب ایک بچہ کسی امتحان میں کامیاب ہوتا ہے تو والدین کی جانب سے اپنی خوشی کا اظہار واجب بنتا ہے ۔لیکن ستم ظریقی یہ ہے کہ جہاں ان طلباء کو باہر سے موافق ماحول نصیب نہیں ہوتا وہیں ان کو گھر کے اندر بھی امتحانات میں کامیابی کے بعد خاصے مشکلات کا سا منا کرنا پڑتا ہے بلکہ یوںکہنا جائز ہوگا کہ ان کی خواہشات اور انکی مرضی کا خون کیا جاتا ہے بھلے ہی وہ محبت بھرے انداز میں کیا جائے۔ان بچوں کی خواہشات کا خون کچھ ایسے ہوتا ہے کہ کہ دسویں یابارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد اکثر والدین اپنے بچوں کی اُن کی مرضی کے خلاف مضمون زبر دستی اختیار کرواتے ہیں اس کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھے بنا ہی ،بھلے ہی وہ بچہ اُس مضمون کو پڑھنے کی دلچسپی رکھتا ہو یا نہ بس والد ین کی مرضی ہے تو پڑھنا ہے نہیں تو والدین کی اور سے اُنکو دھمکیاں ملنا کوئی خلاف معمول نہیں ۔
یہاں ایک اور المیہ یہ ہے کہ جب کوئی بچہ 50فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرتاہے تو اسکے والدین اور دیگر رشتہ دار اسکو سائنس،کامرس یا اور کوئی مضمون، جو اسکی صلاحیتوں کے خلاف ہو، اختیار کرواتے ہیں ۔پھر ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے بچے پھر نہ ہی ڈاکٹر بن پاتے ہیں اور نہ انجینئر ،بلکہ اُلٹا جب یہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن پاتے تو سماج میں انکو اپنا آپ اچھوت لگنے لگتا ہے اور آخر کار وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتاہے ۔وہ تو لازماً احساس کمتری کا شکار ہوں گے ہی جب والدین اپنے بچوں کو یہ کہتے ہوئے ذہن سازی کریں کہ اگر کامیاب ہونا ہے یا زندگی میں کچھ کرنا ہے تو سائنس یا کامرس کا مضمون یا ہماری مرضی کا مضمون ہی پڑھنا پڑے گا لیکن وہ بچہ اپنے اندر کچھ اور بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اس صورت میں تو وہ یہ سوچے گا ہی کہ میرے گھر والوں کی خواہش کے مطابق میں ڈاکٹر اور انجینئر کے بغیر زندگی میں ناکام ہوں، ایسی ذہنیت والا بچہ زندگی میں کیا کر پائے گا۔؟یہاں یہ کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم کسی بچے کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ شکنی کر رہے ہیں کہ سائنس اور کامرس نہ پڑھیں بلکہ اچھی بات ہے اگر ہمارے سماج میں ایمان دار ڈاکٹرس اور انجینئرزبنتے ہیں لیکن کسی کو زبردستی ڈاکٹر یا انجینئر بنانا بچوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
 ایسے والدین بچوں سے شعوری اور غیر شعوری طور پر تعلیم کے نام پر بیگار لے رہے ہیںاور یہ بھی بچہ مزدوری کی ایک قسم جیسی ہی ہے۔ہمارے معاشرے کا ایک ستم یہ بھی ہے کہ یہاں دیکھا دیکھی پر بھی بچوں کی خواہشات کو قربان کیاجاتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ایسے بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اور ایسے دائمی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے بھی ان کی خلاصی ہی ممکن نہیں ہوپاتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچوں میں پھر خود کشی کا رجحان بھی پیداہوجاتا ہے اور وہ منشیات کی جانب بھی مائل ہوجاتے ہیں
 ضرورت اس امر کی ہے کہ جذبات سے پرے اپنے بچوں کی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو جانچا جائے، انکی اچھی رہنمائی کسی ماہر سے کروائی جائے اور اسی کے مطابق انکے لئے مضامین کا انتخاب کیا جائے۔ ہمیں بحیثیت والدین اپنے بچوں کی نفسیات کو جانچتے رہنا چاہئے، اُنکی کے شوق ،اچھائی اور بُرائیوں کے مطابق ہی اُن کو اپنے مستقبل بنانے کا حق دینا چاہئے ۔اگر ہمارے سماج میں والدین کو اپنے بچوں کی نفسیات ،شوق اور صلاحیتوں کو سمجھنے میں دشواریاں آرہی ہیں یا وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے بچوں کو سمجھ سکیں گے تو اُن کو چاہئے کہ کسی ماہر سے مشورہ لیں ۔اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اُس بچے کے سکول ٹیچر سے تو مشور لے سکتے ہیں ؟کیونکہ ایک اُستاد ہی والدین سے بھی زیادہ اپنے شاگردوں کو سمجھ سکتا ہے ۔
غرض بچوں کو اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنے دیں، تبھی جا کر وہ اپنے اور سماج کے لئے کوئی کارنامہ انجام دے پائیں گے، وہ اپنی زندگی اچھے سے گزارسکیں گے۔وہ اپنی صلاحیت اور شوق کے مطابق اپنی تعلیم جب حاصل کریں گے تو وہ اپنے پسندیدہ مضمون میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر سکیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آپکا بچہ استاد، بزنس مین، سماجی کارکن، سیاسی لیڈر یا کچھ اور بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور آپ اس کا انمول وقت ڈاکٹر یا انجینئر بنانے میں برباد کر رہے ہوں!