معمول کے مطابق عشاء نماز کی اذان سنتے ہی میں لایبریری سے نکلا کہ راستے پہ ایک شخص پر نظر پڑی۔ جو شکل سے تو عرب ممالک کا لگ رہا تھا ۔ بوڑھا رسید عمر کا بزرگ، لاٹھی کے سہارے چل رہا تھا کہ اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا۔ چنانچہ میں لایبریری میں دن بھرمختلف ڈیزیز / بیماریوں کے بارے میں پڑھ رہا تھا اوریہاںاس شخص کو دیکھ کر من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ اگر انسان جوانی سے ہی اپنی صحت کا خیال رکھتا تو بوڑھاپے میں اتنی ساری بیماریاں آ نہیں گھیرتیں۔ خیر میں گھر کی جانب چل پڑا اور وضو کرکے مسجد میں نماز پڑھنے گیا۔ اس پھولے ہوئے پیٹ والے بزرگ شخص کو بھی پہلی صف میں پایا، جو کرسی پہ نماز پڑھ رہا تھا۔ بہرحال نماز پڑھ کے میں گھر واپس آ گیا۔ بہت دیر تک میرے بڑے بھائی مسجد سے واپس نہیں آئے، جن کے ساتھ میں جموں میں رہتاتھا ۔ میں اُنہیں ڈھونڈنے پھر مسجد گیا۔ وہاں زور زور سے آوازیں آرہی تھیں گو یا جیسےکوئی لڑائی کر رہا ہو۔ اندر داخل ہوا تو مسجد میں، میرے بڑے بھائی زبیر اور وہی بزرگ شخص عربی میں باتیں کر رہے تھے۔ آہستہ بات کرنے پر اُنہوں نے بتایاکہ اس بوڑھے شخص کوسُنائی نہیں دیتا اور یہ شخص عراق سے تعلق رکھتا ہے۔ وہاں حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہیں ہجرت کرنا پڑی، WHOکے مطابق یہ واحد عراقى مہاجر جموں و کشمیر میں ہے۔میں نے جب اس سے مزید باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بندہ گزشتہ بارہ سال سے جموں وکشمیرمیں رہ رہا ہے اور 2016 میں کشمیر بھی آیا تھا ،موسم گرما میں وادی میں حالات خراب اور موسم سرما میں زیادہ ٹھنڈ رہنے کی وجہ سے واپس جموں ہی آگیا تھا۔یہاں پہ اُن کا کوئی نہیں،البتہ بٹھنڈی جموں کے ایک درسگاہ میں چھوٹے بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور اسکے بدلے میں اُسے رہائش اور کھانا ملتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھاگم دوڑمیں میرے خاندان کے لوگ مختلف ملکوں میں چلے گئےہیں۔ اب میری صرف ایک بہن ہے جوآج بھی عراق میں ہی رہتی ہے۔ وہ شخص اب میرے بھائی سے کہہ رہا تھا کہ’’ کیا اس محلے میں کچھ بچے مجھے مل سکتے ہیں، جنہیں میں پڑھاسکوں اور کچھ چار پیسے کما سکوں ۔ ‘‘بلا شبہ یہ اُس شخص سےزیادہ آزمائش میں نہیں تھا، جس کے بارے رسول ﷺ نے ہمیں آگا ہ کیا۔ پچھلی قوم میں ایک شخص بہت امیر تھا، چرواہوں کو لیکر جب وہ شام کو گھر آیا تو زلزلہ کی وجہ سےبھیڑ بکریاں مر گئیں،پھر رات کے وقت آگ لگ گئ اور پورا مکان جل کرخاکسترہو گیا،جس میںاُس کی اہلیہ بھی فوت ہوگئی اور بچے ہوئے مویشی بھی ہلاک ہوگئے۔ اب آخر میں ایک گھوڑارہا تھا، جس نے اُس کی لات مار کر ایک آنکھ پھوڑ دی، اور بھاگ گیا۔ لیکن آج کے زمانے میں یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ اس زندہ مثال واقعہ سے مجھے کافی سبق حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اول کہ كائنات کی سب سے قیمتی چیز ایمان ہے جو رب کریم کی طرف سے ہمارے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس لئے اسکی حفاظت کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔( اللهم ثبت اقدامانا )
جس طریقے سے اس بوڑھے شخص کواپنا گھروبار ، ماحول، مال، دوست، احباب ، رشتہ دار سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ واقعتاً اُسے بہت قربانی دینی پڑی ہے۔ اسکے بر عکس ہم ابھی اپنے آپ کو اتنا قابل نہیں بناسکےکہ اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکیں، اس لئے کہ لا یکلف الله نفسا الا وسعها۔ ہمیں ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے کہ جتنی آسائشیں الله نے ہمیں دی ہیں،وہ اَن گنت ہیں۔ ہمیں اتنی بڑی نعمتیں حاصل ہیں جن کو بہت سے لوگ سجدوں میں تلاش کرتے ہیں۔ کافی حد تک امن حاصل ہے، کھانے پینے کی سب اشیاء موجود ہیں، سب ضرورتیں پوری ہورہی ہے۔ لیکن تب بھی ہم میں شکر ادا کرنے کا مادہ کم ہی پایا جاتا ہے۔
ہاں!آخری بات یہ کہ ہمارا نظریہ،ہماری سوچ،ہمارا گمان ہر بار صحیح نہیں ہوسکتا۔ جس نظریہ سے ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں، وہی ایک نظریہ درست ہو، ایسا نہیں ہے، البتہ ایک چیز کو مختلف طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ اس شخص کے بارے میں میرا غلط نظریہ تھا کہ اُس نے اپنی جوانی عیاشیوں میں گزاری ہو گی اور صحت کے بارے میں کافی لاپرواہی بھرتی ہوگی، لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس تھی۔ الله پاک ہمیں ہر بُرےگمان سے دور رکھیں۔ہر غلط نظریہ سے بچائیں ،اپنے حفظ و امان میں رکھیں اور ہمیں ہر آزمائش میں صبر اور نعمت میں شکر ادا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین
اقبال آباد بمنہ سرینگر usamaalkindi2020@gmail.