حالیہ دنوں میں جموںوکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے ظاہر کئے گئے میٹرک اور بارہویں جماعت کے نتائج کے بعد ہر سو جشن کا سماں ہے ۔پہلے میٹرک امتحانات میں کامیاب امیدواروں کی شرح75فیصد رہی جس کے بعد بارہویں جماعت کے امتحانات میں یہ شرح80فیصد سے زائد رہی اور یوں کامیابی کی اتنی بڑی شرح پر لوگوںکو جشن منانے کا موقعہ ہاتھ آیا جو غلط بھی نہیں ہے ۔اس سلسلے میں تعلیمی ادارے بھی شادماں ہیں اور گزشتہ دو ایک ہفتوں سے وادی سے شائع ہونے والے کم وبیش سبھی بڑے اخبارات میں سکولوں کے بڑے بڑے اشتہارات مشتہر ہورہے ہیں جن میں وہ اپنی کامیابیوں کو بڑے فخر کے ساتھ اجاگر کررہے ہیں ۔گزشتہ چند برسوں سے ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر طلاب 90فیصد سے زیادہ نمبرات بورڈ امتحانات میں حاصل کررہے ہیںاور امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو 90فیصد نمبرات کے آس پاس رہتے ہیںبلکہ اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ طلاب کی اچھی خاصی تعداد صد فیصد نمبرات بھی حاصل کررہی ہے۔اس سے تعلیم نمبروںکا کھیل بن کر رہ گئی ہے اور اب بچوںکی ذہانت و متانت کو نمبرات کے ساتھ تولاجارہا ہے اور یوں عملی طور ہم نے بچوں کو روبوٹ بنایا ہے جس سے ہم ہر وقت یہ توقع کررہے ہوتے ہیں کہ وہ صد فیصد نمبرات ہی حاصل کریں اور اب جو طالب علم 90سے100فیصد کے درمیان والے ہدف سے کم نمبرات حاصل کرتے ہیں،اُنہیں تو اب کامیاب بھی تصور نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ایسے طالب علموںکو والدین ،اساتذہ اور سماج کی جانب سے کھری کھری سننا پڑتی ہے۔اس صورتحال میں سماج سے جو سوال پوچھنا واجب بنتا ہے ،وہ یہ ہے کہ کیا ہم نے اب تعلیم کو نمبروں کے کھیل تک محدود کرکے رکھا ہے؟۔بلاشبہ نمبرات کسی طالب علم کی صلاحیت جانچنے کا ایک طریقہ ہے تاہم جب یہ طالب علم کا ظرف جانچنے کا واحد آلہ بن جائے ،تو اس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں طالب علموںکی ایک بڑی تعداد نفسیاتی شکست سے دوچار ہوجاتی ہے کیونکہ وہ نمبروں کے اس کھیل میں پچھڑ جاتے ہیں۔ طالب علموں اور ان کے والدین کو گریڈنگ نظام کی محدود اہمیت کے بارے میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارے طالب علموں اور ان کے والدین کو یہ بتانا بھی ناگزیر بن چکا ہے کہ ایک طالب علم کا ظرف صرف ایک مخصوص امتحان میں اس کی جانب سے حاصل کردہ نمبرات کی بنیاد پر جانچا نہیں جاسکتا ہے بلکہ مجموعی صلاحیت جانچنے کا باضابطہ ایک معیار مقرر ہے جس میں طالب علم کی مجموعی شخصیت کو پرکھا جاتا ہے ۔اس ضمن میں اساتذہ کا ایک اہم رول بنتا ہے ۔وہ جس طرح فی الوقت طالب علموں کو روبوٹ بننے میں معاون کا رول نبھا رہے ہیں ،وہ قطعی اس معاشرہ کیلئے اچھی بات نہیںہے بلکہ انہیں طالب علموں کی شخصیت سازی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ہم نے دیکھا ہے کہ دسویںیا بارہویں جماعت میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے والے طالب علم پھر زندگی کی عملی دوڈ میں کہیں نظر بھی نہیں آتے ہیں اور جن بچوں نے ایسے امتحانات میں اوسط نمبرات حاصل کئے تھے ،وہ آگے چل کر کامیابی کی بلندیوں کو چھو گئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے والدین سے بات کی جائے اور اُن کے سامنے آپشنز رکھے جائیں تاکہ انہی لائنوں پر بچے کی شخصیت کو سنوارا جاسکے۔ کلاسوں میں بچوںکو پڑھانے اور امتحانات کے علاوہ اصل کام بچوں کی شخصیت سازی ہے اور ان کی ہمہ گیر نشو نما لازمی ہے جس میں والدین کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔اگر ابتدائی مراحل میں ہی بچوں کی کمزوریوں اور خوبیوںکی نشاندہی ہوتی ہے تو اس سے کیریئر کے انتخاب میںآسانی ہوسکتی ہے ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی بچہ ناقابل نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر بچے میں خالق کائنات نے مخصوص صلاحیتیں ودیعت کررکھی ہوتی ہیں اور ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اُن صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے اُنہیں صحیح سمت میں بروئے کار لایاجائے۔یہاں اساتذہ اور والدین کا اہم رول بنتا ہے ۔نمبروں کے کھیل میں بچوں کو ڈالنے کی بجائے ہمیں اُن کے ہنر اور صلاحیتوں کو فروغ دیناہے تاکہ وہ زندگی کی اصل جنگ میں آگے بڑھ سکیں۔کم یازیادہ نمبرات کو وقار اور حقارت کا مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ اصل کام بچوں کی ہمہ جہت نشو نما ہے اور اگر اس میں ہم کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینی طور پر ہم ایک بہتر معاشرہ کی نیو رکھ سکتے ہیں۔