بنگلہ دیش دیش مسلسل آمریت کا تختہ ٔ مشق بناہوا ہے۔ حال ہی میں وہاں قومی انتخابات کا نام نہاد ڈرامہ رچایا گیا جس میں عوامی لیگ کو فاتح قرار دیا گیا ۔قومی انتخابات میں تقریباً دس کروڑ لوگ ووٹ دینے کے اہل تھے اور انتخابی نتائج منظر عام پر آنے سے قبل ہی ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے عالمی میڈیاکے سامنے کئی مرتبہ چیخ چیخ کر سوال کیا کہ بنگلا دیشی الیکشن کمیشن نے کس منطق کی بنیاد پر قبل ازوقت شیخ حسینہ واجدکو فاتح قراردے دیا ؟ حزب اختلاف نے انتخابات کو مضحکہ خیزاوردھاندلی کی پیداوارکہہ کر ان کی مذمت کی اور نئے انتخابات کامطالبہ بھی کیا۔حسینہ کی جماعت نے تادم تحریر 350 نشستوں والے ایوان میں سے 281 نشستیں جیت لیں، جب کہ حزبِ اختلاف کے حصے میں صرف سات نشستیں آئیں ۔ وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے بی بی سی نےانکشاف کیا کہ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر بھرکر پولنگ سٹیشنوں میں لائے جاتے رہے ۔ الیکشن کمیشن آف بنگلہ دیش نے بھی اعتراف کیا کہ اس نے ملک بھر سے انتخابی دھاندلی کے متعدد الزامات سنے اور وہ ان کی’’ تحقیقات‘ ‘کرے گا۔ یاد رہے پولنگ کے دوران پُر تشدد واقعات میں کئی جانیں ضائع ہو گئیں ، کئی درجن پولیس اہل کار بھی زخمی ہوئے، حزب ِاختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک مرکزی امیدوارکوچاقوزنی سے زخمی کردیا گیا ۔پولنگ کے دوران تشدد آمیز واقعات سے نمٹنے کے لئےملک گیر پیمانے پر تقریباًچھ لاکھ سیکورٹی اہل کار تعینات کئے گئے تھے۔ ان انتخابات میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کامیابی کی راہ اس لئے ہموار تھی کیونکہ عوامی لیگ کی اہم ترین سیاسی مخالف بیگم خالدہ ضیا بدعنوانی کے الزامات میں جیل کاٹ رہی ہیں۔
بنگلا دیش 16 کروڑ آبادی والا مسلم اکثریتی ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات سے لے کر غربت و افلاس اور بدعنوانی تک کے دیرینہ مسائل سے نبرد آزما ہے۔جولائی سنہ 2016 میں دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک بڑی بیکری پر مبینہ طور دولت اسلامیہ کی جانب سے کئے جانے والے دھماکے کے بعد سے حکومت نے اسلام پسندوں کے خلاف انتہائی سخت گیر پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔بنگلہ دیش حال میں پڑوسی ملک میانمارکے لاکھوں روہنگیامسلمان پناہ گزینوں کے سبب بھی سرخیوں میں رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پران لٹے پٹےلوگوں کوملک میں پناہ دینے کے قدم کی تعریف کی گئی لیکن ساتھ اپنے شہریوں کے تئیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روا رکھنےپر حسینہ واجد کی سخت تنقید بھی کی جارہی ہے۔عوامی لیگ سے وابستہ غنڈوں موالیوں میں بتاشے کی طرح اسلحہ کے لائسینس جاری کرنا بھی حکومت کی آمریت پسندی پر دلالت کر تا ہے۔ اس بار بھی ملک میںپرتشددواقعات کے ساتھ انتخابی مہم کاآغاز کیا گیاکیونکہ حکومت نے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کیلئے الیکشن سے قبل ہی اپوزیشن پر بڑا کریک ڈاؤن کیا۔ حسینہ واجد کی حکومت بزور بازو گذشتہ دس برس سے ملک میں آمریت اور استبدادی سیاست کی آبیاری میں لگی ہوئی ہے۔شیخ حسینہ عوامی لیگ کی سربراہ ہیں اور پارٹی کا 2009 سے ملک میں اقتدار چل رہا ہے۔ وہ تیسری بار عہدے کیلئے انتخابات میں کامیاب ہوئیں۔ان کے والد شیخ مجیب الرحمان ملک کے پہلے صدر تھے ،1975 میں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مع اپنے سارےخاندان قتل کر دئے گئے اور تین دن تک شیخ مجیب الرحمان کی لاش سیڑھیوں پر بے گور وکفن پڑی رہی۔اس واقعے میں کنبے کی واحد فرد حسینہ واجدہی تھیں جو بچ گئیں کیونکہ وہ اس وقت بھارت میں مقیم تھیں۔
خالدہ ضیاکی (بی این پی) نے سنہ 2014 میں گذشتہ عام انتخابات کابائيکاٹ کیاتھا کیونکہ عوامی لیگ نے ایک نگراں حکومت کے زیرانتظام انتخابات کرانے سے انکارکردیاتھا۔ بہت سارے تجزیہ نگار خالدہ ضیا کےاس فیصلے پرسوال کرتے ہیں کہ آیا یہ ہوش مندانہ فیصلہ تھا!پارٹی سربراہ خالدہ ضیا کورواں سال بدعنوانی کے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا الزام ہے کہ یہ ان کے خلاف سیاسی انتقام گیری ہے۔انہیں بدعنوانی کے جرم کے تحت ہی حالیہ انتخابات میں کودنے سے روک دیاگیاتھا۔ خالدہ ضیا کی عدم موجودگی میں عوامی لیگ کے سابق وزیر اور شیخ حسینہ کے حلیف کمال حسین حزب اختلاف جاتیہ اویکیا فرنٹ کی رہنمائی کر تےرہے جس میں بی این پی بھی شامل ہے۔بہر حال 81 سالہ وکیل جنہوں نے ملک کے آئین کی تشکیل کی، بھی انتخابات میں امیدوار نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر حزب اختلاف کا کوئی مرکزی قائد ہی نہیں۔ اس کے باوجودعام ووٹر، مبصرین اور حزب اختلاف کے رہنما پولنگ سے قبل کہتے رہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کے زیر سایہ انتخابات صاف شفاف نہیں ہوں گے۔ بی این پی کا خیال تھاکہ اگر انتخابات واقعی صاف شفاف ہوتے تو عوامی ليگ کو اکثریت حاصل نہ کر سکتی۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کا مانناتھا کہ ووٹنگ سے قبل حکومت نے عوام کوڈرانے دھمکانے کے ہتھکنڈو ںسے کا م لیا ۔ادارے کے ایشیا ڈائرکٹربریڈ ایڈمزنے واضح کیا :حزب اختلاف کے اہم ارکان اورحامیوں کوگرفتارکرلیاگیا،بعض کوقتل کیاگیاہے جب کہ بعض لاپتہ بھی ہیں، اس صورت حال سے ملک میں خوف اورگھٹن کا ماحول پیدا ہوا ہےاوریہ فضا کسی بھی قابل ِاعتبارانتخابی عمل سے ہم آہنگ نہیں ۔ اُدھربی این پی کاالزام تھا کہ اس کے ہزاروں ارکان اوررضاکاروں کے خلاف گذشتہ سال پولیس مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ بی این پی کی حلیف پارٹی جماعت اسلامی کو بھی انتخابات میں شر کت کی اجازت نہیں دی گئی لیکن ان کے 20 امیدوار بی این پی کے امیداوارکی حيثیت سے میدان میں تھے۔
پانچ ماہ قبل بنگلہ دیش میں امریکی سفارت کارپرحملے نے ملک میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کو اُس وقت بے نقاب کیاجب بنگلہ دیش میں واشنگٹن کی سفیرمارسیابرنیسنٹ ڈھاکہ میں رات کے کھانے کے بعدایک پارٹی سے نکلیں تو موٹرسائیکل سواروں نے پیچھاکرکے اُن کی گاڑی پرپتھراؤکیااورنقصان پہنچائے بغیرچلےگئے۔ امریکی سفیر پرمسلح موٹرسائیکل سوارکاحملہ کرنا کوئی عام بات نہیں ہوتی تاہم ابھی تک اس حملے میں ملوث کسی بھی مجرم کانام سامنے نہیں آیا۔اس واقعہ سے بنگلہ دیش میں عوامی ناراضگی ، تشدد اورسیاسی غیر یقینت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ حالیہ برسوں میں بظاہرایک جمہوری اورماڈرن مسلم ملک میںیک جماعتی آمریت نافذ العمل ہے۔ امریکی سفیر پر حملے سے کچھ دن قبل29؍جولائی کوایک ٹریفک حادثے میں دو نوجوانوں کی ہلاکت پرپورے ڈھاکہ میں احتجاج کیاگیا، مظاہرین جن میں اکثریت طلبہ کی تھی، حکومت سے سڑکیں محفوظ بنانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرے پرامن ہونے کے باوجود مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا گیا۔ ڈھاکہ کے مضافات میں حکمران پارٹی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کے ارکان نے مظاہرین پر حملےکردئے مگر کسی نے ان کا بال تک بیکا نہ کیا ۔ مظاہرین سے نمٹنے کے حکومتی طریقہ کار کے بارے میں ’’الجزیرہ‘‘ کوانٹرویو دینے کے بعد ہی سماجی کارکن شاہد عالم کو پولیس نے گرفتار کیا اور حراستمیں تھرڈ ڈگری پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ اصل میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ حکومت کی تنقید کرنے والوں کے تئیں بہت افسوس ناک رویہ بروئے کار لایا جاتا ہے ۔اس ضمن میں پارلیمان نے ایک نیاقانون’’ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘‘کے نام سے وضع کیا ہےجس کی رُوسے آن لائن اور سوشل میڈیاپر’’ناپسندیدہ اورجارحانہ مواد‘‘پر پابندی ہوگی۔ کوئی میڈیائی مواد زیر پابندی آتا ہے ،ا س کا تعین کر نے میںحکومت قانون سے بالا تر ہے ۔ اس لئے جن صحافیوں کا کام حکومت کو پسند نہ آنے اُن کے خلاف حکومت بغیر ادنیٰ تامل کے بغاوت اور ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے میں آزاد ہے۔ حکومت نے کسی تعمیری تنقید تک کو برداشت نہ کر تے ہوئے ریاست کے اعلیٰ عہدوں پرموجودافرادکے خلاف بھی کارروائی تیز ترکردی ہے۔ سال ِرفتہ کے ماہ ِنومبر میں سپریم کورٹ نے ججوں کی برطرفی کے اختیار کے حوالے سے حکومتی آئینی ترمیم کو مسترد کردیا، جس کے بعد حکومت نے عدالت کے فیصلے پرشدیدغصے کااظہار کر تے ہوئے چیف جسٹس سورندرکمارسہناکوبیرون ملک مفرور ہونے پرمجبورکردیا۔ اپنی جابرانہ کارروائی کو چھپانے کے لئے حکومت نے دعویٰ کیاکہ وہ چیف جسٹس پربدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلاناچاہتی تھی لیکن بعد ازاں بنگلہ دیش کے احتساب بیورونے اعتراف کیاکہ چیف جسٹس کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اب جسٹس سہنا امریکی حکومت سے پناہ طلب کررہے ہیں۔بنگلہ دیش کی موجودہ جمہوریت انتہائی خطرہ ناک ہے۔ ’’رپورٹر وِد آؤٹ بارڈر‘‘کے مطابق آزادی ٔصحافت کے حوالے سے بنگلہ دیش کانمبر180ممالک میں144واں ہے۔2014ءسے2017ء کے درمیان ’’اکنامک انٹیلی جنس یونٹ‘‘کے جمہوری انڈکس میں167ممالک میں بنگلہ دیش85 سے 92 نمبر کے درمیان رہا۔ سب سے بدترین تجزیہ مارچ 2018ء میں سامنے آیا،جب’’برٹلس مین‘‘رپورٹ میں بنگلہ دیش کوآمریت کی درجہ بندی میں شامل کرلیا گیاکیونکہ وہ جمہوریت کے کم ترین معیارپرپورااُترنے میں ناکام رہا۔2014ء کے انتخابات میں عوامی لیگ دوبارہ منتخب ہوئی توکئی بیرونی مبصرین نے انتخابات کوناقابل اعتبارقراردیا، یہاں تک کہ یورپی یونین نے انتخابات کی نگرانی کے لئے اپنے مبصرین ڈھاکہ بھیجنے سے انکارکردیا۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بی این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، بنابریں حکومت کی جانب سے الیکشن کرانے کے لئے نگراں حکومت قائم کرنے کے قانون کاخاتمہ کرناتھا۔ حزب اختلاف کے بائیکاٹ پر300 میں سے 153نشستوں پر اُمیدواربلامقابلہ منتخب قراردئے گئے،یعنی پارلیمان کی آدھی سے زیادہ نشستوں پر انتخابات ہی نہیں ہوئے۔گزشتہ چار برسوں میں حکومت نے خاص کر حزب اختلاف کو کچل کررکھ دیا۔ اپوزیشن جماعتوں بی این پی اورجماعت اسلامی کے ارکان کوجیل بھیج دیاگیا۔ حکومت اپنے آمریت کوجائزٹھہرانے کیلئے اپنی بد بختانہ کارروائیوں کوانسداد دہشت گردی مہم کانام دیتی ہے۔ حکومت کے مطابق جماعت اسلامی کے جماعت المجاہدین سے تعلقات ہیں،جو ایک دہشت گرد تنظیم ہےاور جس نے حالیہ عرصے میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ڈھاکا حکومت کے آمر یت پسندانہ اقدامات نے حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیاءاوروزیراعظم حسینہ واجد کے درمیان تلخ تعلقات کو اورانتہائی زہریلابنادیاہے۔ حکومت اوراپوزیشن میں سے کوئی بھی مفاہمت کرنے کیلئے تیارنہیں۔ حالیہ انتخاب میں بنگلہ دیش ایک جماعتی ریاست بن کررہ گیاہے۔ نیشنلسٹ پارٹی کے تمام رہنماؤں کو حکومت کی طرف سے شدید دباؤکاسامناہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما مرزا فخر الاسلام نے اکتوبرمیں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاتھاکہ پارٹی کے خلاف 30دن میں 4100 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ چونکہ امریکہ اپنے ملکی حدود سے باہر فتنہ وفساد چاہتا ہے ،اس لئے بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے آمر یت کے گورکھ دھندے پر اس کی ناک بھوں نہیں چڑھتیں ۔ امریکہ کے زیر سرپرستی ا س وقت آمرانہ رجحانات دنیا بھر میں پروان چڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ رجحانات خود امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے۔ گرچہ امریکی سفیر پر حملے سے واضح ہوگیاتھا کہ بنگلہ دیش کے سیاسی گرداب میں واشنگٹن پھنس رہا ہے، مگر یہ اس پر حیران تھا نہ پر یشان۔ حملے سے قبل امریکی سفارت خانے اورحکومت کے درمیان کشیدگی موجودتھی،امریکی سفیرنے حکومت پرکھلے عام تنقید کی تھی،جون میں نیشنل پریس کلب میں تقریرکے دوران امریکی سفیرنے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن رہنما کوالیکشن لڑنے پردھمکیاں دینے کی خبروں پرتشویش کااظہارکیاتھاجس کے جواب میں وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے نے فیس بک پیغام میں امریکی سفیرکو بی این پی کا ترجمان قراردے دیاتھا۔امریکی سفیرپرحملے کی مذمت کرتے ہوئے بروزن شعر عوامی لیگ حکومت نے امریکی سفارت خانے کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ حملے کے ایک دن بعدوزیر اطلاعات حسن الحق نے امریکہ پر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کاالزام عائد کیا۔بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ریاست کے خلاف عوامی غصہ ہے۔ سچ یہ ہے حکومت کی جانب سے فراڈانتخابات ہوں یا اپوزیشن کے خلاف جابرانہ اقدامات، ان سے ملک میںانتہاپسندی کی نئی لہرپیداہونے کا شدیدخطرہ ہے۔انتخاب غیر منصفانہ ہوں توحزب اختلاف کی جانب سے حکومت کی مخالفت کیوںاور نہ بڑھ جائے گی۔ یہ صورت حال امریکہ کیلئے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے تھی اورخیال کیاجاتاتھاکہ واشنگٹن کی طرف سے بنگلہ دیش پردُرست اقدامات کیلئے دباؤبڑھے گا، لیکن امریکہ حسینہ و اجد حکومت کی آمر یت کا دور سے تماشہ دیکھ رہاہے ۔
اس وقت بنگلہ دیش میں جمہوریت و آمریت کے درمیان میں جھول رہی ہے۔بالخصوص 30؍دسمبرکوہوئے انتخابات کے بارے میں جن خدشات کااظہارکیاگیاتھا، جب اس سے بھی بڑھ کردھاندلیاں ہوئیں تو ملک کا مستقبل کتنا تاریک ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ اصولی طور یہاں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات ہی ملک وقوم کوبہتری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔اس حوالے سے چند ماہ قبل ملک میں کئے گئےایک سروے سے پتہ چلا تھا کہ جمہوریت کے استحکام میں حکومتی عدم دلچسپی عوام کا غم و غصہ بڑھتاجارہاہے اور ملک میں ایک بڑی تبدیلی کے لئے عوام کی کافی تعداد انتخابات میں ووٹنگ کا پختہ ارادہ رکھتی ہے مگر شومی ٔ قسمت سے انہیں ا س کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ بایں ہمہ عوامی لیگ اوربی این پی کے بڑے بڑے سابق رہنماؤں پرمشتمل سیاسی اتحاد’’جاتیااوکیان فرنٹ‘‘کی تشکیل سےدوجماعتوں کی لڑائی میں پھنسے عوام کیلئے ایک تیسرے راستے کی اُمید پیدا ہوئی تھی مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ فی الوقت بنگلادیشیوں کو ایک قابل ِاعتبارانتخابی عمل اورسیاسی ہم آہنگی والی فضا کی جس قدر شدید طلب ہے، اُسی قدربدقسمتی سے حسینہ واجدنہ صرف جمہوری قوتوں کوشدیدنقصان پہنچاتی جارہی ہے بلکہ ا س نے ایک مرتبہ پھر بے انتہادھاندلیاں کرکے ثابت کردیاکہ بھارت بنگلہ دیش کو سیاسی استحکام اور نظریاتی بلوغیت کی منزل پانے کی بجائے دلی کی داشتہ بنانے میں کوئی کسر چھوڑ نے کو تیار نہیں۔
�