شمالی کشمیر میں انسانیت کے خلاف حالیہ مجرمانہ حرکت کی حقیقت کیا ہے ، ا س حوالے سے سرکاری انکوائری کے بعد ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔ البتہ اس تحقیق طلب مبینہ زیادتی کے خلاف کشمیر میں جگہ جگہ جو احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ، اس سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ کشمیریوں میں ابھی اخلاقیات کی رَمق باقی ہے ، انہیں اخلاقی زوال کسی صورت قبول نہیں، وہ ناانصافی کے روادار نہیں ، وہ انسانی قدروں سے بالشت بھر بھی سر گردانی بر داشت نہیں کر سکتے۔ یہ ساری چیزیں فی الحقیقت اس قوم کی اخلاقی بر تری کی آئینہ دار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ نقاشِ ازل نے بہشت نما سرزمین کشمیر کو قدرتی حُسن سے ہی مالا مال نہیں کیا ہوا ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کو بھی حیات بخش امتیازات اور خصوصیات سے مزین کیا ہواہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گردشِ دہر کے ہاتھوں ماروں پہ ماریں کھانے کے باوجو آج بھی اہل ِکشمیر انسانیت کے جیتے جاگتے نمونے ہیں ، کشادہ ذہنی، مہمان نوازی اور اخلاقی اَوصاف کے پیکر ومجسم ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانیت کی دشمن شیطانی قوتیں قوم کے ان قابل قدر امتیازات کا سرمایہ دن دھاڑے لُوٹنے کی سازشیں رچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ خصوصاً بنت ِحوا کے تئیں ان ننگ ِانسانیت عناصر کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ سامانیوں کی ایک طویل داستان ہمارے درمیان گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل بنتی چلی آرہی ہے ا ور چشم ِفلک بے بسی کے عالم میں دیکھتا جا رہاہے کہ کس طرح کشمیر کی بیٹیوں کو بلا روک ٹوک نشانۂ ظلم وتشدد بنایا جارہا ہے ۔ اگر چہ ملک میں بڑے شد ومد سے بیٹی بچاؤ کا نعرہ بھی لگایا جارہاہے مگر عملی طور بیٹیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو انہیں زمانے کی حریص نگاہوں کے دست بُرد سے بچا سکے۔ ہمارے یہاںحالات کی نامساعدت کے پس منظر میں اس بارے میں دُکھ اور افسوس سے بھری ایک ناقابل بیان داستان بن چکی ہے۔اس داستان کا ایک حزنیہ کردار تابندہ غنی ہے ۔ ہندوارہ کی اس معصوم وکم سن بچی کو وحشی درندوں نے علی الاعلان نوچ کھایا ۔ لوگوں نے واویلا مچایا تو سرکاری مشنری فوراًحرکت میں آگئی اور جرم کے مرتکبین کو بے نقاب کر کے دَم لیا۔ مجاز عدالت نے تابندہ کے مجر موں کے خلاف سزا بھی سنائی مگر انہیں یہ سزا کب دی جائے گی ، اس بارے میں بر سوں طویل انتظار کی گھڑیاں ابھی ختم ہونے کا نام نہیں لے ر ہی ہیں۔ اسی طرح رومانہ جاوید نا می سری نگر کی ایک مظلوم بچی کو ا وباش غنڈوں نے سر راہ اپنی گاڑی سے کچل ڈالا، مجرموں کو فوراً گرفتار کر لیا گیا ، عدالتی کارروائی کی خانہ پُری بھی ہوئی مگر مجرموں کو کب اپنے کئے کی کڑی سزا ملے گی،اس کا نہ صرف مظلومہ کی بے چین روح کو برسوں سے انتظار ہے بلکہ مقتولہ کے بے بس والدین بھی بے تابی وبے قراری سے منتظر ہیں کہ کب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائے ۔ رومانہ کی برسی کے موقع پر رواں ماہ میں اس کے ٹوٹے ہو ئے والد حکیم جاوید نے اخبارات میں پھر ایک بار غم والم سے عبارت اشتہار شائع کر واکے اپنی بیٹی کو انصاف دئے جانے کی فریادیں کیں مگر کیا کوئی سن رہاہے ؟ رہی بات شوپیان کشمیر کی دو عفت مآب بیٹیوں آسیہ اور نیلوفر کے الم ناک قتل و خون کی ،اس بابت تاقیامت قلم انگشت بدنداں اور دل مغموم ر ہیں گے ۔ درد وکرب کی اس سر گزشت پر آج تک عدل وانصاف کراہ رہاہے کیونکہ مجرموں کی نشاندہی سرے سے ہی نہیں ہوئی ، نتیجہ یہ کہ وہ قانون کی گرفت سے بچ کر اپنے بد ترین گناہ کی سزا پانے سے گویا مستثنیٰ قرارپائے ہیں۔ بہر صورت یہاں ان کی شناخت اگرچہ اخفاء کے دبیز پردوں میں بھی چھپا دی گئی ہو مگر آخرت کی عدالت سے مجرموں اور ان کے مددگاروں کو کوئی مفر نہیں ہوگا ۔ بنت ِحوا کی مظلومیت کا ایک اور کردار کھٹوعہ کی آٹھ سالہ بکروال بچی آصفہ ہے ۔ اسے پتھر دل راکھشسوں نے زندہ چبا ڈالا کہ اس المیے کو یاد کر کے انسانیت کا دل تھر تھر کانپ اٹھتا ہے۔ مجرموں کو پکڑنے کے لئے عوام سڑکوں پر سینہ کوبی کر تے ہوئے آئے تو وقت کی حکومت نے حوا کی بیٹی کے دفاع میں اپنا قانونی اور انسانی فرض بتمام وکمال نبھا یا ، مجرم یکے بعد دیگرے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے ۔ باوجودیکہ اپنے سنگین جرم کو چھپانے میں مجرموں نے کوئی بھی کمی کوتاہی نہیں چھوڑی تھی مگر جرم کی اس جگر سوز و دل خراش کہانی کو پولیس نے بہت جلد مختلف الاطراف دباؤ کے باوصف منظر عام پر لایا۔ مجرم سارے کے سارے پکڑے گئے، جیل کی سلاخیں اُن کا مقدر ہوئیں ، عدالتی جرح وتعدیل کا سرشتہ بھی کھلا مگر ابھی تک اس کیس کا حتمی نپٹارا ہونا باقی ہے ۔ اس کہانی کا یہ پہلو بھی کچھ کم اذیت ناک نہیں کہ جس خاتون وکیل صاحبہ نے آصفہ کو انصاف دلانے میں بہت ہی بہادری کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض بڑی عرق ریزی سے انجام دئے ،انہیں بھی بالآخر مقدمے کی پیروی سے بوجوہ دستبردار ہونا پڑا۔ اصولی طور پر بنت ِحوا کے ساتھ جو بُرا برتاؤ مختلف پیرائیوں میں روا رکھا جا تارہا ہے ، اس کو روکنے میں رائے عامہ کے ساتھ ساتھ سرکاری مشنری اور عدلیہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ انہی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے لئے جب دلی میں معصوم کلیوں گیتا چوپڑااور سنجے چوپڑا کے قتل میں ملوث رنگا اور بلا کو موت کی سزادی گئی تو اس اقدام سے عبرت آموزی سے ا نسانیت کے مجرموں کوکم ازکم حوصلہ شکنی کا پیغام توملا۔ اسی طرح دامنی کیس میںرائے عامہ ، پولیس اور عدلیہ نے جو کلیدی کردار اداکیا ،اس نے بھی بنت ِحوا کو تھوڑ بہت احساس ِ تحفظ دلایا،ا گرچہ ان کے خلاف جرائم کا جہنم زار کسی صورت سرد نہیں پڑا۔ بہر حال ہمارے یہاںحوا کی بیٹیوں کا دفاع قانونی اور عدالتی سطح پر کر نے کے لئے اگرمحولہ بالا مقدمات میں ملوثین کو ازروئے قانون فوراًسے پیش تر سزا دی جائے تو ممکنہ طورماں بہن بیٹی کے خلاف جرم وگناہ کے ناقابل برداشت واقعات کا سلسلہ رُک جانے کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔