ماہ مبارک اپنی تمام تر عظمتوں اور رحمتوں کے ساتھ کئی دن قبل الوداع کہہ چکا ہے ۔ شیفتہؔ کا برقی پیام اب کیا کرنا ہے؟ پڑھ کر ہمیں بھی یہی خیال گذرا کہ اب کرنا کیا ہے ؟بقراط سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ تو کہا جناب بے شمار کرنے کے کام ہیں اور جن میں سب سے اہم اس دنیا کو سدھار ناہے جس کے لئے دانشوران مغرب فکر مند ہیں اور جن میں بل گیٹس جیسے اہل دولت و ثروت بھی شامل ہیں۔حالیہ دنوں میں بل گیٹس نے گلوبل وارمنگ (یعنی کرہ ٔارض پر موسم کی تبدیلی جو تابکاری، بجلی کی پیداوار اور صنعتی فضلے کی مرہون ِمنت ہے اور جو اہل زمین کے لئے بے شمار امراض اور آفات ناگہانی کا باعث بنی ہوئی ہے) کی روک تھام کا بیڑا اُٹھانے والے تحقیقی اداروں میں سرمایہ کاری کی ہے اور اپنی تقاریر و بیانات میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ کہا: بل نے حالیہ دنوں میں ’’اپ ہیول‘‘ نامی کتاب کے مصنف سے اپنی ملاقات میں عام انسانوں کے درمیان نظریاتی اختلافات میں جاری تصادم پر بحث بھی کی ہے، جو سوشیل میڈیا کے اس دور میں زور پکڑتا جارہا ہے اور بقول بل ہر کوئی اب اپنا ایک الگ نظریہ رکھتا ہے۔ مصنف جو کافی خوش آئند تھے اور دنیا میں مختلف امراض اور وباؤں کی روک تھام میں کئے گئے کاموں کا جہاں انہوں نے اعتراف کیا وہیں فاصلاتی اور مواصلاتی طرز تعلق کو اور با لمشافہ گفتگو اور آپسی ملاقاتوں میں حد درجہ کمی کو نظریاتی اختلافات میں بڑھتے تصادم کا ذمہ دار مانا۔ ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ انسان موبائیل اور کمپیوٹر سے دستبردار ہونے سے رہا ۔ دونوں حضرات نے کرنے کے کچھ ایسے کاموں کی نشاندہی کی کہ’’ اب سب کو کیا کرنا ہے بلکہ کیا کچھ کرنا ہے ‘‘کی طویل فہرست بن سکتی ہے۔ شیفتہ ؔنے کہا اہل مغرب خود جدت، مادیت اور صارفیت کو متعارف کرا کے برے پھنسے ہیں اور ساری دنیا کو پھنسا کر اب حل تلاشنے سے رہے، اِلا اس کے کہ کوئی اور نئی ایجاد یا نئی اختراع متعارف کرائیں اور یونہی مسائل اور حل کے دائرے میں کھیلتے کودتے رہیں۔
فرمایا:مسلمان ہمیشہ کی طرح اپنے رب کی رحمتوں سے سر فراز ہو کر اور سارے گناہ بخشوا کر کمر کس رہا ہے کہ کب مادیت کی طرف دوبارہ گامزن ہو۔رمضان المبارک کی عبادتوں کے پس پردہ جو حکمتیں ہیں ان کے مطابق کچھ اور کرنا ہے، جو مسلمان نہیں کرتا یا نہیں کرنا چاہتا، کچھ رعایت کے ساتھ کہیے تو نہیں کر پاتا۔ الغرض مسلمان رمضان المبارک میں جو ہدایت حاصل کرچکا تھا اسے گنوانے کے لئے بے چین ہوا جاتا ہے، جیسےتعلق با للہ اورفرض عبادات کا قیام، قرآن و سنت سے رغبت، حصول علم و حکمت، اللہ کی ذات میں غور و فکر اور وجودِ کائنات پہ تدبر، عہد کی پابندی، صبر و توکل و قناعت، ذہنی و روحانی سکون، اعتدال و توازن، سخاوت و خیرات، حسن سلوک و صلہ رحمی ،اتحاد و اتفاق وعالم گیر بھائی چارہ، محبت و رحم دلی اور حقوق البلاد، بھوک اور موت سے آشنائی اور نفس پر قابو، حق و باطل میں فرق اور ظلم کے خلاف لڑنے کا جذبہ، اللہ اور آخرت کا خوف اور موت اور دنیا سے بے خوفی، سزا و جزا کا احساس اور رب سے ملاقات کی چاہ ۔۔۔یہ ساری ہدایات ماہ مبارک میں پانے کے بعد عید میں خوشیاں منانا تو لازم ہے لیکن عید کے بعد ان ہدایات سے سر مو انحراف چہ معنی دارد؟ ہم نے پوچھا :اس دور پر فتن میں سب سے اہم ان میں کون سی ہدایت ہے تو فرمایا:یوں تو فرض نماز غیر مشروط ہے اور باقی تمام ہدایات اور احکامات وقت، مقام اور حالات کے مطابق مشروط ہیں۔ مسلمانان ہند کو اس کے علاوہ موجودہ دور میں حق و باطل میں فرق کو اُجاگر کرنے ، پیام حق خوش اسلوبی سے پہنچانے اور ضررو ظلم کے خلاف پر امن احتجاج کرنے جیسے کاموں کو اہمیت حاصل ہوگی۔ فرمایا: مسلمانان ِعالم کے لئے تعلق با للہ پر زور دینا ضروری ہے۔ مومن کو یاد رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور زیادتی کرنے والے کو اور حد سے گزر جانے والے کو، تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا اور نہ ہی عہد توڑنے والے کو، نہ قطع رحمی کرنے والے کو اور نہ ہی فتنہ فساد کرنے والے کو۔ایسے ہی کئی کام ہیں جن کا خاص خیال رکھنے سے مذکورہ ہدایات پر قائم رہنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بس جو کچھ کرنا ہے اسی تناظر میں کرنا ہے، بس اتنا ہی کرنا ہے۔ انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ اللہ سبحان و تعالیٰ تمام انسانوں پر رحم فرمائے اور اہل ایمان کو سال بھر رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں رکھے۔ آمین۔