انسان جب دنیا میں جنم لیتا ہے اسی وقت سے اس کو ذہنی کشمکش اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔دنیا نے کیسے کیسے ہولناک فسادات دیکھے ، کیسے انقلابات دیکھے ، کیسی کیسی بیماریوں اور مہلک وباؤں سے دوچار ہونا پڑا اور کیسے کیسے حیران کن انکشافات اور کارنامے انجام دیئے۔ ان سب چیزوں سے سابقہ پڑتے وقت بہت ساری آزمائشوں، اذیتوں، جہد مسلسل ، فکری کشمکش، سے لازمی طور پر گزرنا پڑتا ہے تاکہ اس مخصوص ہدف کو جلد از جلد حاصل کیا جاسکے۔ دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جو سب سے زیادہ اہمیت کا تقاضا کرتی ہے لیکن ہے بہت نایاب۔ اگر ہوتی تو آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑا نہ ہوتی۔ وہ ہے انسانیت یا خدمت خلق۔ انسانیت نام کی چیز تو موجود ہے لیکن بہت ہی نایاب۔دنیا بھر میں انسانیت کا جنازہ اٹھ چکا ہے اور اس پر خطر ماحول میں بھی تمام ممالک میں خدمت خلق کے بجائے آپسی انتشار اور منافرت اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے حاکموں کے بیچ سیاست کی گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔چونکہ کورونا وائرس ایک عالمی وبا کے طور پر پھوٹ پڑی ہے جس کی بنیاد پر دنیا کا ہر ایک طبقہ بری طرح سے متاثر ہوا ہیں۔ امیر ہو یا غریب ، صحت مند ہو یا بیمار سیاست دان ہو یا عام انسان غرض کرہ ارض کا کوئی بھی انسان یا شعبہ نہیں ہے جو اس وبا سے کسی نہ کسی طریقے سے متاثر نہ ہوا ہو۔دل کو دہلانے والی بات یہ ہے کہ اس وبا سے اب تک سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک ترقی یافتہ ہیں مراد یہ ہے کہ تمام سہولیات میسر ہونے کے باوجود آج وہ بے یار و مددگار دکھائی دے رہے ہیں۔
اب چونکہ اس وبا نے ترقی پذیر ممالک میں دستک دے دی ہے۔ ا ب سب اس کوشش میں ہیں کہ کیسے اس عالمی وبا سے نمٹا جائے۔ ایک طرف تو یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہے جو یومیہ اجرت پر کام کرکے شام کو کھاتے پیتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت ہی زیادہ ہے کہ جو دوسروں سے بھیک مانگ کر اپنی روز مرہ کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ ہماراہیلتھ ڈیپارٹمنٹ بھی اتنا مستحکم نہیں ہے کہ اگر خدا نخواستہ اس وبا نے سنگین صورت اختیار کی جو اتنی گنجان آبادی کو اپنے اندر جذب کرسکے۔یقینی طور پر یہاں لوگ اس وبا سے زیادہ بھوک اور افلاس سے متاثر ہو چکے ہیں۔بر صغیر میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کثیرہے اور یقینی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بھی یہی ہے ۔دست کاری کا شعبہ ہو یا مزدوری دوکانداری کا شعبہ یا تجارت پیشی درزی،حجام ، ترکھان، ریڑھی والے، رکشہ ٹیکسی چلانے والے، بس ڈرائیور،ٹرک ڈرائیور،مکینک، الیکٹریشن، پلمبر،سیلز مین ، دہاڑی دار مزدور،مستری، گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکنان۔ یہ سب لوگ دن کو کسی نہ کسی طریقے سے کما کر شام کو اپنے اہل و عیال کو کھلاتے تھے۔
ایسا ہی بلکہ اس سے بھی ابتر حال ہمارے ملک کے دوسرے ریاستوں کا ہے۔ آئے روز کورونا کی وجہ سے ہمارے ملک میں دل کو دہلانے والے واقعات پیش آتے ہیں حال ہی کووڈ ۱۹کی وجہ سے بھوک اور افلاس میں مبتلا متاثرہ خاتون نے اپنے چار بچوں کو قتل کر ڈالا۔ مزدوروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق انڈیا میں نوے فیصد افرادی قوت غیر سرکاری یا غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہیںجن میں رکشا ڈرائیور، صفائی کا کام کرنے والے، سکیورٹی گارڈز یا چوکیدار، ٹھیلے والے ، کوڑا اکھٹا کرنے والے یا گھروں میں کام کرنے والے شامل ہیں۔اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ 130کروڑ آبادی والے اس دیس کا حال کیسا ہوگا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروںمزدور روزانہ ہیلپ لائن پر کال کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں روزانہ بھوکے سونے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ ملک کورونا وائرس کی وبا سے لڑ رہا ہے۔مزید برآں انڈیا 47 کروڑ 20 لاکھ کی بچوں کی آبادی کے ساتھ دنیا میں بچوں کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور بچوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چار کروڑ بچے اور ان کے اہل خانہ متاثر ہوئے ہیں۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جو دیہی علاقے میں کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتے ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جو شہروں میں کوڑے چنتے ہیں یا ٹریفک لائٹس پر غبارے، قلم اور دوسری چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتے ہیں۔اب آپ خود ہی یقین کر سکتے ہیں کہ اگر یہ عالمی وبا بر صغیر میں قابو سے باہر ہو گئی تو ملک کا غریب طبقہ کس در پہ جا کرمدد مانگے گا۔
اس کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ملک کے وزیر اعظم یہ یقین دلا چکے ہیں کہ خط غربت سے نیچے والے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور طبقوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی لیکن زمینی سطح پر فی الحال ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کو چاہیے کہ سیاست کے بجائے اس وقت انسانیت کے نام پر بے یار و مدد گار لوگوں کی اس پر خطر ماحول میں ہر ممکن مدد کی جائے تاکہ آئندہ بھی یہ لوگ اس دھرتی پر اپنی روزمرہ کی زندگی کو کسی درد ،چیخ و پکار اور کسی کے دروازے پر دستک دئے بنا بسر کر سکیں۔ خاص کر کے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اپنی بستیوں میں رضاکارانہ طور پر ان مزدور پیشہ طبقہ کی مدد کریں جو آج کل دو وقت کی روٹی کے لیے بھی ترستے ہیں۔
رابطہ :وانپورہ ،کولگام کشمیر