شفیع احمد
جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، وہاںبد زبانی تیزی سے عام ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقیات کے زوال کی علامت ہے بلکہ معاشرتی اقدار کی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے۔بد زبانی آج ایک معمول بن چکا ہے اور بدقسمتی سے ہر عمر کے افراد اس برائی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں یہ رویہ خاص طور پر تشویش کا باعث ہے، کیونکہ ہمارا دین ہمیں زبان کی حفاظت اور اچھے اخلاق کی تاکید کرتا ہے۔
مسلمان جو کبھی اخلاقیات، محبت اور عزت کا نمونہ تھے، آج ان کی زبان دوسروں کے لیے باعث اذیت بن رہی ہے۔ چھوٹے بچے بھی گالیوں کا استعمال سیکھ رہے ہیں اور بڑے ان کی اصلاح کرنے کے بجائے اسے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ نئی نسل کی اخلاقی بربادی کی جڑ ہے اور اس کے اثرات معاشرتی زوال کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
عبادات اور زبان کا تضاد :
ہم نمازیں پڑھتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور خود کو اللہ کے بندے کہتے ہیں، لیکن ہماری زبان دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کے لیے اعمال کی پاکیزگی اور زبان کی حفاظت کو لازمی قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
گالی گلوچ اور بدزبانی نہ صرف ہماری عبادات کو بے اثر کرتی ہیں بلکہ اللہ کی ناراضگی کا بھی سبب بنتی ہیں۔
نئی نسل کی بربادی اور والدین کی ذمہ داری :
آج کے والدین اپنی نسل کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ بچے جب گالی دینا سیکھتے ہیں، تو انہیں روکنے کے بجائے والدین ہنستے ہیں۔ یہی بچے بڑے ہو کر اسی زبان کو اپناتے ہیں، اور پھر والدین شکایت کرتے ہیں کہ بچہ بگڑ گیا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جیسا بیج بوئیں گے، ویسا ہی پھل پائیں گے۔
گالی گلوچ کے شرعی احکام :
اسلام میں گالی دینا حرام اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ گالی کی مختلف اقسام اور ان کے احکام قرآن و سنت میں واضح ہیں:
اللہ،اللہ کے رسولؐ،ا صحابہ کرام یااولیاءکے خلاف بد زبانی کرنے کا عمل کفر کے مترادف ہے۔والدین، بیوی بچوں یا دیگر مسلمانوں کو گالی دینا سخت گناہ ہے اور اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔اسی طرح زمانے یا دیگر چیزوں کو گالی دینا اسلام میں منع ہے۔بد زبانی اورگالی گلوچ کے عام ہونے کی وجہ سےآج مسلم معاشرہ مختلف آزمائشوں کا شکار ہےاور اُسے کئی مصائب جھیلنے پڑتے ہیں،یہ تکالیف ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال پر غور کریں اور اپنی اصلاح کریں۔
اصلاح کا راستہ :
ہمیں اپنی زبان اور اعمال پر قابو پانا ہوگا۔ بدزبانی یا گالی گلوچ جیسی برائیوں کو اپنی زندگیوں سے نکالنا ہوگا۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کو اچھے الفاظ کے لیے استعمال کریں اور دوسروں کو اذیت سے بچائیں۔ اپنی نئی نسل کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں اور انہیں بد زبانی سے بچائیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اور اپنے کردار کو عبادات کے ساتھ رویے میں بھی ظاہر کریں۔
اختتامیہ:گالی گلوچ اور بدزبانی ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اگر ہم اس بُرائی سے باز نہ آئے، تو ہماری نسلیں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جائیں گی۔ ہمیں اپنے رویے اور زبان کو درست کرنا ہوگا تاکہ ہم اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں برائیوں سے بچنے اور اپنی نسل کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین