بجلی فیس میں تفاوت کیوں؟ | صارفین کی آمدن کے حساب سے فیس وصول کی جائے

عوام ایک جامع لفظ ہے، جس کا مطلب ہے لوگ۔ لیکن جب ہم سماج کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں کئی سطحیں اور کئی درجے ہوتے ہیں۔ سماج میں ریڈی کھینچنے والا مزدور، یومیہ اْجرت پر کام کرنے والا چوکیدار، چھوٹا دکاندار، ڈرائیور، دو لاکھ روپے کی تنخواہ پانے والا افسر جسکی بیوی بھی بڑی افسر ہوتی ہے، ٹھیکیدار، ڈاکڑ، وکیل، صنعت کار، تاجر وغیرہ۔ بجلی محکمے نے حالیہ دنوں بجلی کی ماہانہ فیس میں تکلیف دہ اضافہ کیا ہے۔ بجلی محکمے کے افسر اکثر ’’عوام‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سرکاری فیصلے سماج کے مختلف طبقوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتے ہیں۔ 
میٹر والے علاقوں میں جب فیس کا اضافہ ہوتا ہے تو جان لیجئے کہ کسی گھر میں دونوں میاں بیوی افسر ہیں اور کْل ملا کر اْن کی ا?مدنی دولاکھ روپے ہے۔ اْنہیں معلوم بھی نہیں ہوگا کہ بجلی فیس میں کتنا اضافہ ہوا ہے، کیونکہ گھر کا نوکر فیس بھرتا ہے اور کھاتے ہیں فیس کی جگہ رقم لکھتا ہے۔ کسی کو یہ چٹی نہیں کہ فیس  میں تین سو روپے کا اضافہ ہوا ہے یا چار سو کا۔ اس کے برعکس جب ایک مزدور یا فقط پندرہ ہزار روپے ماہانہ پیشن پانے والا شہری بجلی کا بل دیکھتا ہے تو اس کا سارا ماہانہ بجٹ اْلٹ پلٹ ہوجاتا ہے، کیونکہ اْس کے لئے تین یا چار سو روپے کا اضافہ ایک قیامت ہے۔ تکنیکی تفصیلات میں جائے بغیر اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ ’’عوام‘‘ کے لئے فیس کا اضافہ اور ’’سماج‘‘ کے لئے فیس کا اضافہ کتنا الگ الگ تو حکومت کا تازہ فیصلہ نہایت نامعقول لگتا ہے۔ 
ہر سرکاری محکمہ میں دو کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو ہم ٹی وی اور اخباروں کے ذریعہ سْنتے ہیں، دوسری وہ جو صرف افسرشاہی کے عِلم میں ہوتی ہے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہوچکی ہے۔ گرما کا پورا موسم پینے کے پانی کی خاطر لوگوں کی ہاہاکار کی نذر ہوگیا اور اب سرما میں وادی گھْپ اندھیرے میں ڈوب رہی ہے۔ اس کہانی پر غور کریں تو عام شہری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ بجلی کی فیس اگر ایگریمنٹ کے حساب سے وصول کی جاتی ہے تو شیڈول یا غیرشیڈول کٹوتی کا ہرجانہ کون بھرے گا؟ 
بجلی کی ترسیل اور تقسیم کاری کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے جموں کشمیر میں بھارت کی سبھی ریاستوں سے زیادہ ٹرانسمِشن اینڈ ڈسٹرِبیوشن نقصانات ہیں۔ یہ شرح پچاس فی صد ہے جبکہ مجموعی قومی شرح تیس فی صد سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ نظام کے تحت اگر واقعی محکمہ 1250 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کو پوری طرح بھی بروئے کار لائے تو ہمارے پاس ٹی اینڈ ڈی نقصانات کو چھوڈ کر صرف 625 میگاواٹ بجلی مہیا ہوگی۔ ایسے میں اگر کہیں کہیں اور وہ بھی کبھی کبھی بجلی کے درشن ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ وہ موجزہ سے کم نہیں، کیونکہ محکمے کے مطابق سردیوں میں ڈیمانڈ 2000میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ 
محکمے کا کہنا ہے کہ فی الوقت کشمیر وادی میں صرف دس لاکھ صارف محکمے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وادی کشمیر کی 70 لاکھ آبادی میں سے 60 لاکھ لوگ ناجائز بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ کس کی غلطی ہے؟ میٹر نصب کروانے کے لئے کروڑوں روپے بیرونی ایجنسیوں کو دئے گئے لیکن سو فی صد میٹرنگ کا ہدف پورا نہ ہوپایا۔ اگر کوئی ناجائز کنیکشن لیتا ہے تو اْس کو دیتا کون ہے؟ محکمہ غریب عوام کے لئے فیس میں اضافہ کرنے سے پہلے اپنے اندر کا نظام درست کرتا تو بہتر ہوتا۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی بِنا خلل فراہمی تب ہی ممکن ہوگی جب موجودہ 1250 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں کم از کم 1000میگاواٹ کا اضافہ ہوجائے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ آلسٹینگ اور بڈگام کے منصوبے اب طویل انتظار کے بعد مکمل بھی ہونگے، لیکن ٹی اینڈ ڈی نقصانات جو بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے ہورہے ہیں، اْس بارے میں کیا منصوبہ ہے۔ 
اربوں روپے بجلی محکمے اور اس کے ذیلی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور سینئر افسروں کی ٹھاٹ باٹ پر خرچ ہورہے ہیں۔ اسی محکمہ کے انجنئیر دو وزرائے اعظم کے منصوبوں کو اپنی نااہلی کی وجہ سے غرق کرچکے ہیں۔ غور کیجئے آلسٹینگ کا منصوبہ چالو کرتے وقت ترسیلی لائن پر نظر پڑی کہ تیار ہی نہیں۔ ایسے انجینئروں سے کیا توقعہ کی جاسکتی ہے جو15 سال تکمرکزی اور مقامی حکومتوں کو ٹرخاتے رہے ہیں۔ اگر نیا قانون واقعی جواب دہ انتظامیہ کو ممکن بنانے کے لئے نافذ کیا گیا ہے تو بجلی محکمے کے اْن سبھی افسروں کو فارغ کردیا جائے جن کی نااہلی، سْستی اور بے توجہی کی وجہ سے مرکزی سرکار کے منصوبے دْھول چاٹ رہے ہیں۔ 
خود محکمے نے بار بار اعتراف کیا ہے کہ بجلی فیس میں پرانے دنوں کی طرح بقایا جات کا مسلہ نہیں ہے۔ عام صارف کو فیس ادا کرتا ہے، لیکن فیس میں اضافہ کی منطق کیا ہے؟ کیا فیس کا اضافہ غریب شہری اور تین منزلہ مکان میں نصف درجن گیزر اور بلور استعمال کرنے والے ایسے شہری کے لئے جو دو لاکھ روپے ماہانہ کماتا ہے یکسان ہونا چاہئے؟ 
رابطہ۔ 9469679449،7780882411
ای میل۔[email protected]