بات چیت۔۔۔۔۔ کس سے اور کیسے؟

  مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ وادی کا تین روزہ دورہ سمیٹنے کے بعد فی الوقت جموں میں ہیں۔وادی میں اپنے قیام کے دوران مختلف تقاریب سے خطاب کرنے کے علاو ہ وادی میں اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں بھی بات چیت کا خوب ذکر کیا ۔مزاحمتی قائدین کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ وہ ہر ایک کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیںاور اگر کسی کو کوئی شکایت یا شکوہ ہے تو اُسے بھی دور کیاجائے گا ۔سرینگر آنے سے قبل نئی دہلی میںبھی انہوں نے کہاتھاکہ وہ کشمیر میں سبھی لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلئے تیارہیں اور اس کیلئے کسی پیشگی شرط کا بھی حوالہ نہیں دیا گیاتھا۔اب جبکہ وزیر داخلہ کشمیر سے رخصت بھی ہوچکے ہیں تو بات چیت کیلئے سازگار ماحول تیار کرنے کے تعلق سے کوئی بات تک نہ ہوئی ۔جب کشمیر کے حوالے سے بات چیت کی بات ہوتی ہے تو یہ سوال لازمی پیدا ہوتا ہے کہ بات کن حلقوں سے کرنی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں وفود وزیر داخلہ سے ملےتاہم اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی بلکہ اگر ا س مشق کو فوٹو سیشن کا نام دیاجائے توشاید بیجا نہ ہوگا۔ماضی میں بھی اس طرح کے متعدد وفود راجناتھ سنگھ اور دیگر مرکزی اکابرین سے مل چکے ہیں تاہم چونکہ زمینی سطح  پرایسے عمل سے صورتحال میں تبدیلی پیدا ہونے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ، لہٰذارات گئی تو بات گئی کے مصداق یہ باتیں ہی فراموش ہو جاتی ہیں۔اب جہاں تک ہند نواز یا مین اسٹریم جماعتوں کے ساتھ وزیر داخلہ کی ملاقاتوں کا سوال ہے تو بے شک انہوں نے اپنا سیاسی موقف وزیر داخلہ کے سامنے رکھا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے معاملات آئین ہند کے اندر زیادہ سے زیادہ ا ندرونی خود مختاری تک محدود ہیں۔ اگر چہ مرکزی حکومت کے اندر بیشتر حلقےریاست کی  اندرونی خودمختاری کا مکمل جنازہ اٹھانے پر تلے ہوئے ہیں اور قرائن سے لگ رہا ہےکہ اس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں لیکن پھر بھی اگر ان معاملات پر بات کرنے کا اعلان کیاجائے گا تو کیااس سے کشمیر کے بنیادی مسئلے پر فرق آسکتا ہے۔کشمیر میں جو مزاحمتی تحریک چل رہی ہے، وہ اندرونی خود مختاری یا سیلف رول کےلئے نہیں بلکہ اسکا مقصد اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر مسئلہ کا حل ہے۔ تو ایسے حالات میں صورتحال بہتر بنانے کےلئے بات چیت کے اصل فریق کون ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کے لئے کوئی مشکل نہیں لیکن موجودہ حالات میں بات چیت کا مخاطب مزاحمتی خیمہ ہونا چاہئے ، کیونکہ اس فریق کو الحاق کشمیر پر تحفظات ہیں اور وہ آئین ہند سے باہر  بات چیت پر زور دے رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہند کیلئے اگر واقعی کسی کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تو وہ یہی طبقہ ہے ۔مزاحمتی طبقہ ہی بنیادی معاملات پر اختلافی موقف رکھتا ہے اور معاملہ فہمی اورمفاہمتی اصولوں کا تقاضا ہے کہ ناراض لوگوں سے ہی بات کی جانی چاہئے، تاہم یہاں صورتحال بالکل برعکس ہے ۔جن لوگوںکوبات چیت میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ،انہیں پہلے تو علیحدگی پسند کہاجاتا تھا لیکن اب انہیں دہشت گرد قرار دیئے جانے کی مہم جاری ہے۔حکومت ہند کی نظروں میں گیلانی،میرواعظ اور ملک سمیت سارے مزاحمتی لیڈران و کارکن اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیںتو ظاہر بات ہے کہ ان سے کیا بات کی جاسکتی ہے ۔ویسے بھی این آئی اے کی موجودہ مہم کے ذریعہپہلے ہی مزاحمتی قائدین کا دائرہتنگ کیاچکا ہے اور انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع بھی نہیں مل پاتا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو بھلا بات چیت کےلئے ماحول کیسے تیار ہوسکتا ۔حکومت ہند نے کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو پیسوں کی ریل پیل سے جوڑ کر یہ یاثر دینے کی پیہم کوشش کی ہے کہ یہاںمزاحمتی تحریک کے نام پر اصل میں حوالہ رقوم کا دھندا کیاجارہا ہے اور جب یہ دھندا ہوتو حکومت کی نظروں میں اس تحریک کے قائدین عوامی اعتماد کے حامل لیڈر کیسے ہوسکتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اس طبقہ سے کوئی بات نہ ہوگی اور جب اس طبقہ سے بات نہ ہوگی تو پھر بات کس سے ہوگی اور کیا ہوگی؟ڈیولپمنٹ اور ترقی کے نام پر سیاست کا سلسلہ گذشتہ 70برسوں سے جاری ہے، تاہم مسئلہ جوں کا توں ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ترقیاتی پیکیجز سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے بلکہ کور ایشو کو ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے اور کور ایشو مسئلہ کشمیر ہے ۔حکومت ہند جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کرے گی ،اتناہی بہتر ہوگا۔بھلے ہی آج این آئی اے آپریشن کے چلتے ایسا لگ رہا ہو کہ مزاحمتی تحریک دب چکی ہے تاہم زمینی سطح پر ایسا نہیں ہے اورماضی کا تلخ تجربہ بھی ہمیں یہی بتاتا ہے ۔اسی لئے بہتر ی اسی میں ہے کہ مزاحمتی قیادت کو بے اعتبار کرنے کی بجائے انہیں آن بورڈ لیاجائے اور مذاکرات کا ایک سنجیدہ عمل شروع کیاجائے جس میں تیسرا فریق پاکستان بھی شامل ہو تاکہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کیاجاسکے ۔اسی میں ہندوپاک اور خود کشمیر کی بھی فلاح وبہبود مضمر ہے ورنہ یہ ناسور رستا رہا ہے اور ہندوپاک اس کشیدگی کی بھٹی میں جھلستے رہیں گے۔