باتھ روم کا رخ قبلہ کی جانب ہو، بیت الخلاء کس رخ ہونا چاہیے ؟احادیث میں آیا ہے کہ ہمارے پیارے آقا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلے کی حُرمت کے سبب قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے سے منع فرمایا ہے :ایک حدیث میںہے کہ’’ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ توقبلے کی طرف نہ منہ کرو ،نہ پیٹھ ،خواہ پیشاب کرنا ہو یا پاخانہ ، البتہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیاکرو‘‘ ۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کہتے ہیں: ہم ملک شام گئے، تو وہاں قبلے کی جانب بیت الخلاء بنے ہوئے تھے ،ہم وہاں قضائے حاجت کے وقت رُخ بدل کر بیٹھتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے تھے ، (صحیح مسلم: 264)‘‘۔ مغرب یا مشرق کی طرف منہ کرنے کا حکم ملک ِشام کی مناسبت سے ہے ، جیسے ہمارے یہاں میں بیت الخلاء شمال یا جنوب کے رُخ پر بنانا چاہیے ۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ’’جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو نہ وہ قبلے کی طرف منہ کرے اور نہ پیٹھ‘‘۔ (صحیح مسلم:265)
علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ قضائے حاجت کے وقت یا طہارت کرنے میں قبلے کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پیٹھ اور اگر بھول کر قبلے کی طرف منہ کرلیا تو مستحب یہ ہے کہ(یاد آتے ہی فوراً) جس قدر ممکن ہو، رُخ بدل دے‘‘۔ ’’تبیین ‘‘ میں اسی طرح ہے اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مکان میں ہو یا صحراء میں (یعنی دونوں جگہ یہی حکم ہے)،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:50)
صورتِ مسئولہ میں بہتر تویہ ہے کہ اگر متبادل بیت الخلاء موجود ہوتو اس بیت الخلاء کواُس وقت تک استعمال نہ کریں ،جب تک کہ اُسے درست نہ کرلیا جائے اور اگر متبادل صورت ممکن نہ ہوتو جب تک اس کی سمت درست نہ ہوجائے، اس وقت تک بیت الخلاء استعمال کرنے والوں پر لازم ہے کہ قضائے حاجت کے وقت قبلہ والی جہت سے انحراف کرکے بیٹھیں (یعنی جتنا ہوسکے رُخ موڑ کر بیٹھیں، تاکہ چہرہ یا پشت قبلے کی طرف نہ ہو)اور بیت الخلاء سے نکل کر استغفار بھی کریں۔ اِسی طرح کمسن بچوں کو پیشاب یا پاخانہ کرانے والے پر لازم ہے کہ بچے کا منہ یا پیٹھ قبلے کی طرف نہ کرے ، ورنہ کرانے والا گنہگار ہوگا ۔