ایک اور چمن اُجڑ گیا

انسپکٹر سرؔمد نے اپنے ساتھیوں کو پہرے داری کرنے کا اشارہ کرکے خود دروازے پہ  دستک دی،  تو اندر  سے نسوانی آواز آئی ’رُکو، آرہی ہوں ‘۔دروازہ کھول کر وہ چونک گئی اور کہنے لگی پولیس یہاں …… انسپکٹر نے اپنی ٹوپی کو اوپر کرکے سر کو تھوڑا جُھکا کے کہا، ’ میں انسپکٹر سرمد ہوں‘۔ عورت کچھ کہے بغیر اُلٹے پاوٗں واپس  چلی گئی اور چلاتی ہوئی بولی، ’بی بی جی پولیس آئی ہے‘۔
 بیگم غامدی اپنے کندھوں پہ شال اوڑھتی ہوئی تیزرفتاری سے اپنے کمرے سے باہر آئی اور پوچھا  ’انسپکٹر صاحب کیا بات ہے ‘۔
’میڈم ہمیں آپکے گھر کی تلاشی لینے کے احکامات صادر ہوئے ہیں‘۔ انسپکٹر سرمد بولا ۔
بیگم غامدی نے کہا ’کس بات کی تلاشی ، انسپکٹر صاحب ہم سیدھے سادھے عزت دار لوگ ہیں‘۔
 انسپکٹر سرمد نے کہا وہ سب ٹھیک ہے ،گھر کا  مالک کون ہے؟ 
’بیگم غامدی نے کہا ’اس گھر کا مالک میرا  شوہر محترم  غضنفر غامدی ہے۔ اور وہ  بزنس  کے سلسلے میں مینہیٹن (Manhattan)گئے ہوئے ہیں‘۔
’ انسپکٹر سرمد نے کہا ،کونسا بزنس ہے غامدی صاحب کا؟
’ بیگم غامدی نے کہا جی ہمارا ہینڈی کرافٹس (Handicrafts) کا کاروبار ہے، جس کے شو رومز کئی بیرونی ممالک میں ہیں‘۔
 ’ انسپکٹر سرمد نے اپنے ساتھیوں کو تلاشی کے لئیے ادھر ادھر بھیج دیا۔ خود اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا جس کے شو کیس میں کئی سونے اور چاندی کے تمغے اور باقی اعزازات بھرے پڑے تھے اور پوچھا کہ یہ سب کسی کے ہیں‘۔
 بیگم غامدی نے بڑے فخر سے کہا ’یہ  میرے بیٹے روشان  غامدی کے ہیں  اِن میں سے  اُس نے چند  نصابی اور  باقی  غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے کے لیے  حاصل کیے ہیں ‘۔
 انسپکٹر سرمد  نے لمبی اور گہری سانس لی اور دائیں جانب ایک کمرے کا دروازہ کھول کر چیزیں ٹٹولنے لگا۔بیگم غامدی نے کہا ’یہ کمرہ روشان کا ہے۔ یہاں  اُن کھیلوں کے لوازمات ہیں  جس میں روشان  دلچسپی  لیتا ہےاور کچھ نہیں۔ اس کمرے میں انسپکٹر نے ایک گیند کو ہاتھ میں اُٹھایا اور اس کوغور سے دیکھنے لگا ،پھر  الٹ پلٹ کر کئی بار رگڑ کے گیند کو سونگھنے لگا۔ وہ گیند کو ہاتھ میں لئے آگے بڑھا۔
’انسپکٹر سرمد نے ایک اور سوال کیا، کہ آپ کا  بیٹا روشان اس وقت کہاں ہے؟ 
بیگم غامدی نے کہا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کھیل کی مشق کر رہا ہوگا‘۔
’ انسپکٹر سرمد نے حیران ہوکر پوچھا، ۔۔۔ ’ہوگا‘۔۔۔؟ آپکو پکا نہیں پتہ وہ کھیل کی مشق کہا ں پرکر رہا ہے‘۔
بیگم غامدی نے نہایت اعتماد سے کہا، ’انسپکٹر صاحب پوچھ گچھ اُن سے کی جاتی ہے جو آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں۔  آپ کو ابھی تک تو اندازہ ہوا ہوگا میرا بیٹا روشان ان میں سے نہیں ہے ۔وہ  اپنے کالج کا ایک ہونہار طالب علم ہے۔  جس نے سکول اور کالج کے چند ہی سالوں میں اتنے اعزازات  اور تمغے اپنے نام کر لے ہیں۔ ہم اس کو نہیں پوچھتے وہ کہاں ہے اور کدھر جا رہا ہے کیونکہ اس کی ذہانت اور قابلیت دیکھ کر ہمیں اس بات کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا ہے جس پر سوال اٹھایا جائے۔ اس کی اور سے ہم بالکل بے فکر ہیں۔
انسپکٹر سرمد نے اپنا سر اوپر اٹھا کر  دبی ہوئی آواز میں کہا بیگم غامدی مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ اپنے  بیٹے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ بے فکر ہو چکی ہیں۔ اتنی بے فکر ……….کہ. . …….! لیکن بیگم غامدی نے  آفیسر کی یہ بات نہیں سنی۔
آفیسر نے مزید پوچھا اس وقت آپ کے ساتھ گھر میں اور کون ہے؟ 
 بیگم غامدی نے کہا ’میری ساس ہے، جو  اپنے کمرے میں سوئی ہوئی ہے. میری ملازمہ ہے اور میرا چھوٹا بھائی تسلیم رانا آنے والا ہے‘۔
اتنے میں بیگم غامدی کا بھائی تسلیم رانا آگیا۔ گھر کے اندر اور باہر پولیس دیکھ کر وہ اپنے آپ سے کہنے لگا ! آخر  ماجرا کیا ہے؟ اس نے ایک سوالیہ نظر بہن کی طرف اٹھائی دوسری پولیس آفیسر کی طرف۔
انسپکٹر سرمد نےاپنی ٹوپی بغل میں رکھ کے تسلیم رانا کو الگ بلایا اور کہا ’رانا صاحب آپ کو مضبوط رہنا ہوگا کیونکہ خبر اچھی نہیں ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ روشان غامدی شہر سے دور ایک ہوٹل  کے کمرے میں فوت شدہ ملا اور وہ کمرہ اس نے اپنے دوستوں سے مل کر چند روز قبل بُک کیا تھا۔فوت ہونے سے قبل روشان نے  کافی مقدار میں  منشیات  لئے تھے۔ایسا فارینسک جانچ کے بعد پتہ چلا ہے۔
تسلیم رانا نے کہا ‘آفیسر یہ ہو ہی نہیں سکتا آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے‘۔
انسپکٹر سرمد نے سنجیدگی کہا ’اور  یہی غلط فہمی دور کرنے کےلیے ہم نے اس گھر کی تلاشی لی ،انسپکٹر نے تسلیم رانا کو وہ گیند دکھائی   جو  اس کے ہاتھ میں کافی دیر سے تھی، جس میں  ایک چھوٹا سا زپ (zip) لگا ہوا تھا اسکو کھولا تو وہاں  منشیات  کے پیکٹ برآمد ہوئے۔ساتھ ہی بولا، تسلیم صاحب نوجوان نسل کی خستہ حالت ہم سے بھی نہیں دیکھی جاتی ہے ۔ ہم والدین بچوں کی بہترین کارکردگی دیکھ کر  ان کی اور سے بے فکر ہو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کی اس کچی عمر میں بچے آسانی سے غلط سنگت میں پڑ جاتے ہیں۔  بری صحبت میں کسی ایک طبقے یا فرقے کے بچے نہیں پڑتے بلکہ ہر طبقہ کا یہی حال ہے۔آئے دن منشیات سےمتعلق معاملات سامنے آتے ہیں۔اس کے بعد انسپکٹر سرمد نے روشان کے کمرے کے ایک کونے میں سرنج (syringe)  اور کچھ مشکوک چیزوں کی طرف اشارہ کیا ، جسے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا اس  کمرے  میں منشیات کا استعمال  پہلے  ہو چکا ہے۔تسلیم رانا دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا اور اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔
اتنی دیر میں روشان کی میت کو گھر کے اندر لایا گیا ۔ساری بستی اور گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور اس طرح دیکھتے ہے ایک اور چمن اُجڑ گیا۔
���
 وزیر باغ، سرینگر