یکم دسمبر کے موقع پر ہر سال پورے عالم میں ’’ عالمی یوم ایڈس‘‘ منایا جاتا ہے جس دوران مختلف ممالک میں محکمہ صحت کے علاوہ قائم انسداد ایڈس کے ادارے جانکاری فراہم کرتے ہیں۔ اس سال کے ایڈس کا نعرہ " ایڈس کے وباء کا خاتمہ…لچک اور اثر" ہے جس کے ذریعے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ عالمی سطح سے اس وباء کے تیز پھیلاؤ کو روکنے کا سدباب کیا جائے – لیکن عملی طور پر کس حد تک لوگوں کو اس مہلک بیماری سے بچایا جاتا ہیں اس کی تصویر تمام ترقی پزیر ممالک بہت ہی خوب انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ایڈس یعنی (Acquired Immuno Deficiency Syndrome) پھیلنے کی کئی وجوہات سائنسدانوں نے بیان کیں ہیں۔ایک رائے کے مطابق یہ بیماری افریقہ کے جنگلوں میں پائے جانے والے سبز بندروں میں وائرس کے موجود ہونے سے پھیلی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ فرانسیوں نے یہ وائرس حیاتیاتی جنگ (Warfare Biological ) کے لئے اپنی لیبارٹریز میں تیار کر کے جن چمپنزیز (Champanzies) پر تجربات کئے تھے وہ لیبارٹری سے بھاگ کر لوگوں کو زخمی کر گئے اور اس کے پھیلنے کا سبب بن گئے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ بیماری پہلی مرتبہ ایک ہی وقت میں 1981میں نیو یارک، لاس اینجلس اور سان فرانسیسکو میں ہم جنس پرستوں میں دریافت ہوئی اور اس کے بعد یہ سارے یورپ و امریکہ میں پھیل گیا۔ یہ بیماری طاعون سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ آج تک اس بیماری میں کئی مہلک وائرس دریافت کئے گئے ہیں جن سے کروڑوں لوگوں کی قیمتی جانیں چلی گئی ہے۔
اس وائرس میں سے ایچ آئی وی یعنی (Hman Immuno Defiency Virus) جوکہ ایڈس کا باعث بنتا ہے سب سے زیادہ مہلک ہے۔ اس وقت دنیا میں کروڑوں انسان اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اس کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 90 فیصد متاثر لوگوں کی تعداد ترقی پزیر ممالک سے ہیں۔ دنیا بھر میں روزانہ ساڑھے سات ہزار لوگ ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں- ایچ آئی وی وباء سے متاثر کن بڑے ممالک میں سے ہندوستان تیسرے درجہ پر ہے جہاں 2.1 ملین سے زیادہ لوگ اس کے شکار ہوئے ہیں۔ جہاں بھارت ایچ آئی وی اعداد و شمار2020کے مطابق مہاراشٹر کی ریاست میں سب سے زیادہ متاثر کن اشخاص (3.96 لاکھ) پائے جاتے ہیں اور اس کے بعد آندھرا پردیش، کرناٹک، اتر پردیش، تلنگانہ، تامل ناڑو، بہار اور گجرات جیسی ریاستیں ہیں- ان آٹھ ریاستوں میں کل ملا کر ملک کے 72 فیصدی ایچ آئی وی متاثر کن افراد رہتے ہیں۔
یہ وباء جموں و کشمیر میں بھی بڑی تیز رفتاری سے پھیل رہی ہیں اور کئی لوگوں کو اپنا شکار بنا چکی ہے۔ شائع شدہ ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں پچھلے سولہ برسوں میں چھ سو اٹھائیس (628) اشخاص کی ایڈس کی وجہ سے موت واقع ہو چکی ہیں- جموں و کشمیر ایڈس کنٹرول سوسائٹی (J&KACS) کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق،20اکتوبر2020تک 6394 افراد کے جانچ مثبت ملے ہیں اور اے آر ٹی علاج پر 2821 اشخاص رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بیماری ہم جنس پرستی، غیر ہم جنس پرستی کے ساتھ غیر فطری جنسی فعل کرنے سے، ایڈس زدہ انسان کا خون لینے سے، ایڈس زدہ مریض کی استعمال شدہ سرینج سے، ایڈس زدہ ماں سے اسکے نو زائیدہ بچے کو، ادویات اور منشیات استعمال کرتے وقت یکسان سرینج کے استعمال سے اور نائی کے آلودہ اوزاروں پر ایڈس زدہ مریض کا خون لگنے سے پھیل سکتی ہے۔ جب کہ یہ بیماری ایڈس مریض کے ساتھ مصافحہ کرنے سے، گلے لگنے سے، چومنے سے، کھانا کھانے کے ساتھ یا بیت الخلاء کا استعمال کرنے سے نہیں پھیلتی ہے۔ اس بیماری کی علامت یہ ہے کہ اسے انسان کا دفاعی نظام یعنی قوت مدافعت درہم برہم ہو جاتا ہے۔ جس سے خون میں سفید خلیے (WBC's) تباہ ہو جاتے ہیں اور مریض خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔Enzyme Linked Immuno Sorbent Assayجیسے جانچ کی بدولت ہی اس بیماری کو قبل ازوقت نشاندہی کی جاسکتی ہے۔اس وباء کے در پیش مسائل کو روکنے کے لئے نزدیکی تمام ایڈس طبی مراکز پر مفت ایچ آئی وی جانچ کی جاتی ہے تاکہ ہر ایک فرد اپنی ایچ آئی وی پوزیشن کو جان سکیں۔
اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے نسخہ کیمیا کے زریعے عالم انسانیت کو آگاہ کیا ہے اور قبل از وقت مختلف وبائی امراض کے پھیلاؤ کے اسباب کے ساتھ اس سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی راہ دکھائی ہے۔ ایڈس جیسی مہلک بیماری سے بچنے کے لئے ہمارے سامنے واحد ظاہری صورت میں دوائی بطور قرآن موجود ہے۔ اسلام دنیا کے تمام موجودہ مذاہب میں سے ایک نمایاں حیثیت کا حامل دین ہے جو کہ مکمل ضابطہ حیات و اخلاق پیش کرتا ہے۔ انسانی زندگیوں کو سنوارنے، عظمتوں اور عصمتوں کی حفاظت کرنے، شرم و حیاّ کو برقرار رکھنے اور اخلاقی و روحانی تربیت کرنے میں اسلام کے اصول و ضوابط بڑی اہمیت کے حامل کار ہیں۔ قرآن ایک مکمل نسخہ کیمیا کی طرح ہمارے تمام اعمال کو نکھارنے میں مدد دیتا ہے اور ہر اس کام سے منع کرتا ہے جس سے عزت و وقار، عظمت و عفت اور عصمت داغدار ہوں۔ اسلام نے مسلمان کو سب سے پہلے دوا کی گولی ’پنج وقت نماز‘ عطا فرما کر تمام بے حیائی اور بْرے کاموں سے روک دیا اور یہ دوا ہر مسلمان کے لئے ضروری ٹھہرایا ہے۔ بے حیائی کے اڈوں سے دور رہنے پر قْرآن کریم کا ارشاد ہے، ’’ اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل،23:81)
اسی طرح ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا، ’’ اور بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا ‘‘۔ (الانعام، 151:6)
یہاں بے شرمی و بے حیائی میں مبتلا ہونے پر منع ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی تنبیہ کی گئی ہے کیوں کہ اس طرح بے حیائی کی بیماری یعنی ایڈز ہو جاتا ہے۔ جنسی خواہش کی آزادی پانے کی وجہ سے ہی غیر مسلم اقوام ایڈذ میں شکار ہو رہے ہیں- بقول حضرت علامہ اقبال ؎
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
مغرب کی فطرت یہی رہ چکی ہے کہ وہ جس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں تو دوسر ے اقوام کیوں کر اس سے بچتے رہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ سے زیادہ بے حیائی و بدکاری کے آلات کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ وہ عیاشی کے خاطر جنسی آزادی کا نعرہ د یتے ہوئے دوسرے اقوام کو بھی اس گندے کیچڑ میں مبتلا ہونے کی کھلی دعوت دیں رہے ہیں۔
اسلام نے ہم جنس پرستی اور غیر ہم جنس پرستی جیسے ایڈس کے اہم اسباب پر لگام کستے ہوئے اسے گمراہی کی راہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے، ’’ اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کے کام کیوں کرتے ہو جبکہ تم دیکھتے ہو۔ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذّت حاصل کرنے کے لئے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو‘‘۔ (النمل، 55۔54:72)
نفس کو بے لگام و بے قابو چھوڑے رکھنا گاڑی بغیر بریک کے چلانے کے مترادف ہے۔ شبہ ہے کہ زندگی میں ایک بڑا حادثہ پیش آنے کا اندیشہ ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال ؎
اپنے ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
نفس کی پیروی کرنا شیطان کا شیوہ ہے اور جو لوگ شیطان کے قدم بہ قدم چلتے ہے، وہ تو ہمیشہ ہر شخص کو بے حیائی اور نا معقول ہی کام کرنے کو کہے گا جسے انسان کا مالک حقیقی کی ناراضگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اسکے برعکس جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوگا وہ کھبی بھی اپنے مالک حقیقی کو ناراض نہیں کرتے۔ انسان کو من چاہا زندگی ترک کر کے رب چاہا زندگی اختیارکرنی چاہئے۔ اصل میں اپنے نفس کو خوش رکھنے کے بدلے اپنے مالک حقیقی کی خوشنودی حاصل کرنی چاہئے۔اسلام میں جنسی خواہش کے پورا کرنے کے لئے صرف اور صرف نکاح کی راہ کو قانونی شکل دے کر مومنین کا وصف قرار دیا گیا ہے جس میں محبت و الفت، چاہت، عصمت، انس و احساس اور عفت کا گہرا تعلق ہوتا ہے-
قرآن کریم نے واضح فرمایا ہے کہ جو لوگ فحاشی پھیلانے کا کام سرانجام دیں گے ان کے لئے زبردست دردناک عذاب (النور: 91 ) ہوگا۔ ایڈس پھیلانے والی تمام بری عادتوں سے اسلام وضاحت کے ساتھ روکتا ہے اور بڑی تاکید کے ساتھ دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم بحیثیت مسلم معاشرہ قرآن کے آفاقی اصولوں کو اپنانے لگیں گے تو پھر اس بیماری کا مسلم معاشرے سے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے میں بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔اللہ پاک ہم سب کو اس مہلک وباء اور دیگر برائیوں سے بچائیں۔آمین
رابطہ ۔ہاری پاری گام،ترال
فون نمبر۔ 9796134890